• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر : نرجس ملک

ماڈلز: انمول راجپوت، مہہ وش، علیزے خان، یعسوب جٹ، زین خان  

فی میل ڈریسز: Mahajer Studio

آرائش: Ibnebuksh

آرائش: Bips Jawaid Sadiq

کوآرڈی نیشن: عابد بیگ

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

’’عیدالفطر‘‘ سویّوں، شیر خُرمے والی میٹھی عید ’’ماہِ رمضان المبارک‘‘ کی مزدوری، اجر، انعام، صلہ تو ہے ہی، لیکن زیادہ تر چِڑیوں، تتلیوں سی چہکتی، چہار سُو رنگ بکھیرتی لڑکیوں بالیوں، شوخ و شنگ البیلی دوشیزاؤں، معصوم، بھولے بھالے، لاابالی، بےحد شرارتی، بہت بےفکر، ننھے مُنّے چوزوں جیسے چھوٹے چھوٹے بچّوں سے مشروط ہے۔ ’’چھوٹی عید‘‘ چھوٹوں، بالکوں اور ککڑی کی بیل، دھریک سے گویا شرط باندھ کرتیزی سے قد کاٹھ نکالتی الہڑ ناریوں کو جیسا اور جتنا نہال و سرشار کرتی ہے، ویسا اور اُتنا شاید ہر ایک کو نہیں کرتی۔ 

اِسی طرح ’’عیدالاضحیٰ‘‘، بقرعید، عیدِ قرباں، عیدِ ایثار، بڑی عید، بڑے لڑکوں بالوں (نوجوانوں) گھر کے مَردوں اور خواتین وغیرہ کے لیے زیادہ باعثِ مسرت و شادمانی ٹھہرتی ہے۔

گھر کے مَردوں، نوجوان لڑکوں کا قربانی کے جانور کی خریداری، دیکھ ریکھ سے لے کر ذبح کرنے، گوشت بنانے اور پھر حصّے داروں میں تقسیم کرنے کے مراحل تک کا ذوق وشوق، عمل دخل دیدنی ہوتا ہے، تو خواتین کا جانور کی قربانی سے لے کر گوشت سمیٹنے، سنبھالنے، بانٹنے، محفوظ کرنے اور پکانے کھانے کے ضمن میں نت نئی تراکیب آزمانے تک کے سب امور کی نگرانی، تمام ترمعاملات میں پیش پیش رہنا گویا ناگزیر ٹھہرا۔ 

اِس اعتبار سے ’’چھوٹی عید‘‘ اگر بچّوں، بچیوں، لڑکوں، لڑکیوں کے لیے پیامِ مسرت و فرحت ہے، تو ’’بڑی عید‘‘ بڑوں کے لیے ایک اہم دینی فریضے کی احسن انداز سے ادائی کے ساتھ سُنّتِ ابراہیمیؑ کی پیروی میں اخلاص و وفاداری، ایثار و قربانی، کامل اطاعت اور مکمل سپردگی کے اظہار کا بہترین ذریعہ اور موقع۔ 

وہ کیا خُوب صُورت شعر ہے کہ ؎ یہ عید، عشقِ خاص ہے، بیٹے کا باپ سے… تُو بھی اسی طریق سے رُوٹھا خُدا مَنا۔ اور پھر صائب جعفری کا وہ کلام کہ ؎ ’’دینے پیغامِ محبّت شمس اُبھرا عید کا… ہو مبارک سب کو، دِن اِک اور آیا عید کا… ایک دوجے کے گلے لگ جاؤ، نفرت چھوڑ کر… یوں مناؤ مِل کے خوشیاں، ہے زمانہ عید کا… دل کہ پژمُردہ، غم و اندوہ کی صرصر سے تھا… کِھل اُٹھا دِل مثلِ گُل، پایا جومُژدہ عید کا… کسمپرسی میں بھی سرشُکرِ خدا میں جُھک گیا… آسماں پر جب ہلالِ نُورچمکا عید کا…مثلِ اہلِ بیتِ سرکارِ رسالتؐ حشرتک… فرض ہےہراِک مسلماں پرمنانا عید کا…عید کیا ہے، حُکمِ یزداں کی اطاعت کی بہار… دیکھو، عصیاں کرنہ دے پھر رنگ پھیکا عید کا… روزِ قرباں ذبح کرنا جانور سُنّت ہے پر… کیا نہیں، ایثاروقربانی تقاضا عید کا… ہے خلیلؑ اللہ کےصدق وصفا کی بازگشت… ہے جہاں میں چار سُو جو آج چرچا عید کا… فاخرہ پوشاک، اونچی پگڑیوں کے ساتھ ساتھ… معصیت سے دُور رہنا بھی ہے جلوہ عید کا… خواہشاتِ نفس پر پھیروچُھری توبات ہے… ورنہ رہ جائے گا دن، بن کر تماشا، عید کا… دیکھو رہ جائے نہ بھوکا آج ہمسایا کوئی… خلقِ خالق کی نگہداری ہے مایا عید کا… العجل لبیک ہو وردِ زبانِ مومنیں… اے خُدا اس طرح گذرے لمحہ لمحہ عید کا۔‘‘ پھر ایک اور شعر ہے؎ عیدِ قرباں سے مقدّس نہیں کوئی تقریب… اِس طرح بھولا سبق یاد دلایا گیا ہے۔ 

جب کہ سردار محمّد شمیم کے دو اشعار ہیں ؎ ’’ عرض کی اِک عالمِ دیں سے مہربانی کریں… کیا کروں، اِس عید پر، کچھ راز افشانی کریں… مُسکرا کر، پیار سے حضرت نے مجھ سے یوں کہا… گوشت کی تقسیم میں لالچ کی قربانی کریں۔‘‘

تو بات یہ ہے کہ اگر ’’بڑے‘‘ اِس عیدِ قرباں کے اصل مطلب و معنی، حقیقی مقصد و مفہوم کو جان مان کے اُس پر سو فی صدی نہ سہی، 50 فی صد ہی عمل درآمد یقینی بنا لیں، تو بجا طور پر ’’بڑی عید‘‘ سے بڑا کوئی تہوار نہیں۔ عیدِ قرباں سے مقدّس کوئی تقریب نہیں۔ روٹھے خدا کو منانے کا اِس سے بہتر، افضل موقع اور کوئی نہیں کہ سورۃ الحج، آیت نمبر 37 میں اللہ تعالیٰ خُود فرماتا ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ کو نہ تو قربانی کاگوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ اُسے صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ 

جب کہ فرمانِ نبوی ﷺ ہے کہ ’’جس نے خوش دلی کے ساتھ، طالبِ ثواب ہوکر قربانی کی، تو وہ اُس کے لیے دوزخ کی آگ سے آڑ ہوجائے گی۔‘‘ اِسی طرح دو اور فرامینِ مصطفیٰﷺ ہیں۔ ’’اولادِ آدمؑ نے قربانی کے دن کوئی ایسا عمل نہیں کیا، جو اللہ کے نزدیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادہ پسندیدہ ہو۔ اور قیامت کے دن وہ ذبح کیا ہوا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کُھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خُون اِس سے پہلے کہ زمین پرگرے، اللہ کےہاں مقبول ہوجاتا ہے۔ 

پس، تم قربانی کرکے اپنے دِلوں کو خوش کرو۔‘‘ اور ’’قربانی کرنے والے کو، قربانی کے جانور کے ہربال کےبدلےایک نیکی ملتی ہے۔‘‘ یعنی محض نیّت کی درستی، عمل کا اِخلاص پروانۂ جنّت بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ یوں تو ہر صاحبِ استطاعت مسلمان کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی بساط کےمطابق جس جانور کی بھی قربانی کرسکتا ہے، ضرور کرے۔ ایک سے زائد کرسکتا ہو، تو زائد کرے۔ 

ایک سالم جانور کرسکتا ہو، تو سالم کرے، سالم کرنے کی توفیق نہ ہوتوحصّہ ڈال لے۔ مطلب، مقصد سُنّتِ ابراہیمیؑ کو زندہ، تازہ کرنا، اللہ کی راہ میں جانورگرانا ہے۔ عیدالاضحیٰ اور ایّامِ تشریق خاص اِسی ایک مقصد کے لیے مختص ہیں، تو جب اس تہوار پر اللہ کی دو مخلوقات کا سرِتسلیم خم کرنا لازم و ملزوم ہی ہے، تو کیا ہی اچھا ہو کہ نیّت وعمل کو جس حد تک خالص رکھا جا سکتا ہے، رکھا جائے۔ 

نمود ونمائش، بناوٹ و تصنّع، مکروفریب سے بچتے ہوئے، ذبیحہ کے ساتھ لالچ و طمع، حرص و ہوَس کے گلے پر بھی چُھری پھیردی جائے۔ نیز، جانور کی قربانی کے ساتھ خواہشاتِ نفسانی، لذاتِ دنیوی کی قربانی، اُن کا بھی خون بہا دینے میں قطعاً کوئی حرج نہیں کہ تب ہی تو بڑی عید کی عظمت و بڑائی پر مُہرِ تصدیق ثبت ہوگی۔

بہرکیف، ہم نے ہرسال کی طرح اِمسال بھی حسبِ توفیق، عیدالاضحیٰ کے لوازماتِ خاص کے ساتھ یہ ایک چھوٹی سی بزم بطور تحفۂ عید آپ کے لیے سجادی ہے، جب کہ عید تعطیلات کے سبب، جریدہ بھی وقت سے کچھ پہلے ہی پیشِ خدمت ہے۔ گر قبول اُفتد، زہے عزوشرف۔ اختر شیرانی کی ’’عید‘‘ کے عنوان سے ایک خوب صُورت نظم ؎ ’’آتی ہے جھومتی ہوئی بادِ بہارِ عید… مستِ طرب ہے آج ہر اِک مے گُسارِ عید… لایا ہلالِ مژدۂ بےاختیارِ عید… شُکر خدا کہ پھر نظر آئی بہارِ عید… دنیا سُرور و نُور کی موجوں میں غرق ہے… کس درجہ جاں فزا ہے نسیمِ بہارِ عید… معصوم بچّے جاگتے ہیں کس خوشی سے آج… گویا کہ ہیں ملائکِ شب زندہ دارِعید… بچھڑی ہوئی سہیلیاں یوں ملتی ہیں گلے… ہو جس طرح کہ عید کوئی ہم کنارِ عید… اُن کی طرف گزر ہو تو کہہ دینا اے نسیم… کرتا تھا یاد آج کوئی سوگوارِ عید۔‘‘ کے سنگ جملہ مسلمانانِ عالم، تمام پاکستانیوں اور خصوصاً قارئینِ جنگ کو مناجاتِ دل کے ساتھ عید ِایثار، عیدِ قرباں، عیدالاضحیٰ، ’’بڑی عید‘‘ بہت بہت مبارک ہو۔

سنڈے میگزین سے مزید
جنگ فیشن سے مزید