مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
دنیا کی ہر ماں اپنی اولاد کے لیےایک ایسی اَن مول نعمت ہے، جس کا کوئی بدل نہیں، خواہ وہ فرد کی ماں ہو یا جگ کی۔ ہم اپنی ماں کو اپنی ماں کم اور ’’جگ ماں‘‘ کی حیثیت سے زیادہ جانتے ہیں۔ ہم ابھی نوعُمر ہی تھے کہ والد اچانک داغِ مفارقت دے گئے اور والد کا سایہ سر سے اٹھنے کے بعد والدہ نے پچاس سالہ بیوگی کا عرصہ سخت مصائب و آلام میں گزارا، لیکن تنگی ترشی اور انتہائی کٹھن حالات کے باوجود انھوں نے ہماری نہ صرف بہترین تربیت کی بلکہ تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ کیا۔
حالاں کہ ذرائع آمدنی انتہائی محدود اور رشتے ناتے صرف نام کے تھے۔ والد کے انتقال کے بعد ہمارے کسی رشتے دارنے مُڑ کر خبر نہ لی، مگر صبر کی کوہِ ہمالیہ، ہماری والدہ نے ہر آفت، مصیبت، دُکھ سُکھ کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔
کبھی کسی کے سامنے دستِ طلب دراز کیا، نہ کبھی کسی سے شکوہ کُناں ہوئیں۔ رات دن کپڑے سی سی کر تمام بچّوں کی پرورش کی اور اپنی اولاد کو بھی صبرو شکر ہی کا درس دیا۔ دنیاوی کے ساتھ ہمیں دینی تعلیم سے بھی آراستہ کرکے ہر ممکن اخلاقِ حمیدہ سے متعصف کیا۔ نیز، زمانے کے سرد و گرم سے بچا کر اپنے پَروں میں چھپائے رکھا۔ بچّوں کے بگڑنے کی عُمر میں چھاؤں چھتری بن کر پہرہ دیا۔
لڑکوں کی بھی لڑکیوں کی طرح ایسی حفاظت کی کہ ہم سائے بھی ہماری شرافت کی گواہی دیتے۔ خود پڑھی لکھی نہ تھیں، مگر ہمیں ہر طرح کی تعلیمات سے خوب سنوارا۔ ان کے اپنے اوصافِ حمیدہ کا ذکر کیا جائے، تو وہ نیکیوں میں پیش پیش، نمود و نمائش سے کوسوں دُور، حُسنِ اخلاق کا نمونہ، مثبت سوچ کی حامل، دوسروں کے دُکھ درد کو اپنا دُکھ سمجھنے والی ہستی، غریبوں کی ہم درد، ہم سائیوں سے مثالی برتاؤ کرنے والی، سادگی کا پیکر، صبر و شُکر کی پیکر اور اولاد پر جان نثار کرنے والی ایک مثالی ماں تھیں۔
میرا نہیں خیال کہ ہماری والدہ نے زندگی بھر کبھی کسی سے جھگڑا کیا ہو۔ ہر ایک سے خندہ پیشانی سے پیش آتیں۔ دوسروں کی تکالیف خود پر سوار کرلیتیں اور اُس وقت تک چین نہ آتا، جب تک تکلیف رفع نہ ہوجاتی۔ محلّے کی خواتین اپنے مسائل لے کر آتیں، تو خوش دلی سے سُن کر حتی المقدور حل کرتیں یا حل کروانے میں مدد کرتیں۔ کبھی کوئی ضرورت مند ہمارے گھرسے خالی ہاتھ نہیں جاتا، اپنے طور پر خیرات و صدقات میں ہاتھ کھلا رکھتیں، خصوصاً پاکیزگی کا حددرجہ خیال رکھتیں۔
ہر وقت تسبیحات کی مالا جپتیں، ربّ کے حضور معافی کی طلب گار رہتیں۔ وہ کہا کرتی تھیں ’’بہت اوکھی منزل ہے، نہ جانے میرا کیا حشر ہو، بس اللہ میاں بے حساب بخش دے اور مرتے وقت کلمہ نصیب ہوجائے، ہر قسم کی محتاجی سے ربّ محفوظ رکھے، مَیں بہت ہی گنہگار ہوں۔ ربّ کے حضور پیشی کا ڈر ہے، بس، میرا ربّ اپنی بے پایاں رحمت سے میری کشتی پارلگا دے۔‘‘ ہمیں خاص نصیحت کرتیں کہ نماز اور تلاوتِ قرآنِ پاک کسی صورت نہیں چھوڑنی۔ کسی کا دل نہیں دُکھانا، ہمیشہ سچ پر قائم رہنا اور حق کا ساتھ دینا۔ کبھی کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں کرنا۔
آخری عُمر میں معدے کی تکلیف میں مبتلا ہوگئیں، مگر کسی صُورت اسپتال یا کلینک جانے کو تیار نہیں ہوتیں، بارہا اصرار کے باوجود ڈاکٹر سے رجوع کرنے پر تیار نہیں ہوتیں، کہتیں۔ ’’مجھے کوئی تکلیف نہیں، مَیں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘ اُنھیں ہر دَم اس بات کی فکر رہتی تھی کہ اُن کی وجہ سے کسی کو ذر؎ّہ بھر بھی تکلیف ہو، نہ کسی کے کاروبار یا ملازمت میں خلل آئے۔ اس کے برعکس گھر میں کسی فرد کو تکلیف ہوتی، تو ساری ساری رات جاگ کر گزاردیتیں۔
اُن کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ کے گھر کی زیارت نصیب ہوجائے، مگر مالی حالات اجازت نہیں دیتے تھے۔ اور پھر حج پر جانے کے لیے قرعہ اندازی کے عمل سے گزرنا پڑتا تھا، جس میں کچھ مقدر والے ہی کام یاب ہوتے تھے، لیکن یہ اُن کی سچّی لگن اور تڑپ ہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی سُن لی اور مکّہ مکرّمہ میں مقیم میرے ایک شاگرد کی وساطت سے اسپانسر شپ آگئی، تو حجِ بیت اللہ نصیب ہوا۔
غرض یہ کہ میری والدہ کی زندگی میں زمانے کے بہت سرد وگرم آئے، مگر انھوں نے اپنی استقامت میں لغزش نہ آنے دی اور ایک سچّے و پکّے مومن کی طرح ہمیشہ صبر و شُکر پر قائم و دائم رہیں۔ دو سال قبل بیماری نے زور پکڑا، تو اُسی وقت اسپتال جانے پر رضامند ہوئیں، جب انتہائی مجبور ہوگئیں۔ تاہم، اسپتال جاتے ہوئے راستے ہی میں داعئ اجل کو لبیک کہہ گئیں۔ اللہ پاک اُن کی رُوح کو آسودگی اور جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (آمین) (محمد مشتاق احمد سیال، ریٹائرڈ پرنسپل گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج، بہاول پور)
٭بے حیائی کا خاتمہ (جمیل احمد اعوان، سبزہ زار اسکیم، ملتان روڈ، لاہور) ٭زندہ، مگر مَرا ہوا آدمی (شین فاطمہ، کورنگی، کراچی) ٭نام خود تجویز کریں (سعیدہ جاوید، امیر روڈ، بلال گنج، لاہور)٭میری دُکھ بھری کہانی (امتیاز وارث ملک المعروف ٹیپو سلطان، رنگ روڈ، راول پنڈی)۔٭ سبق آموز، دل چسپ آپ بیتی (اکبر حیات اعوان، اسلام آباد)٭مکافاتِ عمل (بشیر احمد بھٹی، فوجی بستی غربی، بہاول پور)٭اُن دنوں مجھے گُردے کی سخت شکایت تھی (خالد سلیم، پی ای سی ایچ ایس، کراچی)٭مچھلی والا (راشدہ صدیق عباسی، چاہ سلطان، راول پنڈی)٭اللہ کے انعام یافتہ بندے (حامد رشید، لاہور) ٭میرا ہائی اسکول، ایک سوسال کا ہوگیا (واجد علی شاہین، لاہور) ٭دریا کی بیٹی (سیّد حیدر قلی، گرین ٹائون، لاہور)٭پاک چین دوستی اور اقتصادی راہ داری منصوبہ (صدیق فنکار)۔
٭مصر کے سات قابلِ دید مقامات (انیسہ عائش)٭انسانی مساوات اور اسلامی تعلیمات (دانیال حسن چغتائی)٭سیمک بلوچ کون ہے؟ (عبدالغفار بگٹی، ڈیرہ بگٹی)٭تقدیر کی حقیقت +معجزہ معراج النبی ؐ (رانا اعجاز حسین چوہان) ٭رزقِ حلال کا تصوّر (ڈاکٹر محمد ریاض علیمی) حضرت سیدنا ابراہیم ؑخلیل اللہ کی آزمائش (محمد جاوید افضل علوی) ٭ والدین کا احترام (ارسلان اللہ خان، حیدر آباد)٭ یوسف کمال المعروف شکیل احمد (سیّد ذوالفقار حسین نقوی)۔