• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

40 ارب روپے خورد برد، خیبرپختونخوا کے سرکاری محکمے ایک دوسرے سے الجھ پڑے، الزام تراشیاں

پشاور(ارشد عزیز ملک )40 ارب روپےکی خوردبرد، خیبرپختونخوا کے سرکاری محکمے ایک دوسرے سے الجھ پڑے، الزام تراشی،سیکرٹری محکمہ مواصلات و تعمیرات نے کرپشن ہونے کا عتراف کرتے ہوئے کہا کہ رقم محکمہ خزانہ، اکاؤنٹینٹ جنرل آفس اور سی اینڈ ڈبلیو کے اکاؤنٹس سیکشن کی ملی بھگت سے خوردبرد کی گئی،پبلک اکاونٹس کمیٹی نے کہا کہ اگر مکمل تحقیقات کی گئیں تو اسکینڈل 200ارب روپے سے تجاوز کر سکتا ہے،اسکینڈل میں اعلیٰ بیوروکریٹس اور سیاسی ٹاؤٹس ملوث ہوں گے،احمد کنڈی نے کہا کہ مشیرخزانہ مستعفی ہوں،اسپیکر بابر سلیم سواتی نے کہا کہ اتنی بڑی کرپشن سینئر افسران کی نگرانی میں کیسے ممکن ہوئی؟تمام محکمے اس کرپشن میں شریک ہیں، کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا،خیبرپختونخوا اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے محکمہ خزانہ، مواصلات و تعمیرات اور اکاؤنٹینٹ جنرل آفس کے افسران کو معطل کرنے اور تین دن کے اندر رپورٹ طلب کرنے کے احکامات جاری کیے جانے کے بعد سرکاری محکمے 40 ارب روپے کی خردبرد اور بدعنوانی کے بڑے سکینڈل پر ایک دوسرے سے الجھ پرے اور ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے لگے۔ PAC نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس سکینڈل کی مکمل چھان بین کی گئی تو یہ رقم 200 ارب روپے سے بھی تجاوز کر سکتی ہے، جس میں اعلیٰ افسران اور سیاسی ٹاؤٹس بھی ملوث ہوں گے۔محکمہ C&W کے سیکرٹری نے بدعنوانی کی تصدیق کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ یہ رقم محکمہ خزانہ، AG آفس اور ان کے اپنے اکاؤنٹس سیکشن کی ملی بھگت سے نکلوائی گئی۔ احمد کنڈی نے اس سکینڈل پر مشیر خزانہ مزمل اسلم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔40 ارب روپے کی خردبرد کی خبر سب سے پہلے جنگ اور دی نیوز نے دی، جس کے بعد صوبے بھر میں ہلچل مچ گئی۔ سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی نے PAC کا خصوصی اجلاس طلب کیا۔PAC کا ہنگامی اجلاس سپیکر بابر سلیم سواتی کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں اراکین اسمبلی، مشیر خزانہ مزمل اسلم، ڈائریکٹر نیب، اکاؤنٹنٹ جنرل، ڈی جی آڈٹ، سیکرٹری خزانہ، سیکرٹری C&W اور دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کیاجلاس میں کوہستان میں ایک سرکاری فنڈ سے 40 ارب روپے سے زائد کی خردبرد پر غور کیا گیا۔ انکشاف کے بعد سامنے آنے والے شواہد، ادارہ جاتی ناکامیاں اور مجرمانہ غفلت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ سپیکر نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدعنوانی صرف کوہستان تک محدود نہیں بلکہ دیگر اضلاع خصوصاً قبائلی علاقوں میں بھی ایسے واقعات ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نیب پہلے ہی تحقیقات شروع کر چکا ہے اور اب اسمبلی کی سطح پر مکمل چھان بین ضروری ہے۔اکاؤنٹنٹ جنرل نصرالدین نے اجلاس کو بتایا کہ 2024 میں اس اکاؤنٹ میں کرپشن کا انکشاف ہوا جس کے بعد اکاؤنٹ بند کر دیا گیا۔ 2016 سے اب تک اکاؤنٹ نمبر 10113سے 181 ارب روپے جمع ہوئے جبکہ 206 ارب روپے نکلوائے گئے، جس میں 24 ارب روپے کی کمی بیشی ہے۔ سپیکر نے سوال کیا کہ جب اکاؤنٹ میں رقم نہیں تھی تو 24 ارب روپے کیسے غائب ہو گئے اور اتنی بڑی کرپشن سینئر افسران کی نگرانی میں کیسے ممکن ہوئی؟ چھ سال تک اکاؤنٹ آفس کیا کرتا رہا؟AG نے وضاحت دی کہ ضلعی سطح پر فنڈز کی نگرانی ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس افسران کرتے ہیں اور ان کے دفتر اور محکمہ خزانہ کے درمیان ہمیشہ تنازع رہا ہے۔ سپیکر نے اس وضاحت کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے AG پر گول مول باتیں کرنے کا الزام لگایا۔سیکرٹری C&W اسرار خان نے واضح طور پر اعتراف کیا کہ یہ رقم ان کے اکاؤنٹس سیکشن، AG آفس اور محکمہ خزانہ کی ملی بھگت سے نکلوائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ چیکس پر دستخطوں کا جائزہ لیا جائے تو پوری کہانی سامنے آ جائے گی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اتنی بڑی رقم نکالی جا رہی تھی تو محکمہ خزانہ اور AG آفس کو کیسے خبر نہ ہوئی؟ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا C&W، خزانہ اور AG آفس نے مل کر یہ رقم نکلوائی، تو انہوں نے جواب دیا، “جی بالکل۔”سیکرٹری خزانہ نے ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ یہ اکاؤنٹ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ سپیکر نے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسی بے قاعدگیوں کی ذمہ داری کسی صورت میں محکمہ خزانہ سے ختم نہیں ہو سکتی۔

اہم خبریں سے مزید