اسلام آباد(نمائندہ جنگ)سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں ملک کی دیگر تین ہائی کورٹوں سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تین ججوں کے تبادلہ اور بعد ازاں نئی لسٹ کے مطابق ان کی سنیارٹی طے کرنے کے خلاف دائر اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں کی آئینی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں جج کے تبادلہ کے وقت دونوں جانب سے چیف جسٹسز کے ساتھ ان کی سینیارٹی پر بھی مشاورت کی جانی چاہیے تھی، جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی آئینی بینچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی تو درخواست گزار ججوں کے وکیل منیر اے ملک پیش ہوئے اور دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ججوں کے تبادلہ سے متعلق بہت سی چیزیں واضح نہیں کی گئی ہیں،جسٹس سرفراز ڈوگر کا تبادلہ اتفاقیہ نہیں، سوچی سمجھی منصوبہ بندی ہے، جسٹس سرفراز ڈوگر لاہور ہائیکورٹ کی سینیارٹی لسٹ میں سولہویں نمبر پر تھے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں تین ججوں کو ٹرانسفر کر کے لایا گیا، جسٹس سرفراز ڈوگر کا تبادلہ اتفاقیہ نہیں بلکہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی سے ہواہے ،انہوں نے کہاکہ یہ تبادلے اسلام آباد ہائیکورٹ پر قبضہ کرنے کیلئے کیے گئے ہیں ، تبادلہ کے وقت سینیارٹی کے معاملے پر چیف جسٹس سے مشاورت نہیں کی گئی ۔