نیویارک (تجزیہ : عظیم ایم میاں) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے دورے پرخطے میں اپنے تجارتی اور سیاسی مقاصد کے لئے موجودہیں وہ امریکا کے لئے ایک ٹریلین یعنی ایک ہزار ارب ڈالرز کی امریکا سے تجارت اور سرمایہ کاری کے معاہدے حاصل کرنے کا ٹارگٹ لیکر گئے ہیں اور تقریباً انہوں نے ہدف حاصل کرلیا ہے ، انہوں نے سعودیہ سے 600ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ حاصل کرلیا ہے اور قطر سے 400ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ بھی پایہ تکمیل کے قریب ہیں۔ ان کو 500؍ ملین ڈالرز کی مالیت کا بوئنگ طیارے کا قطری تحفہ اور سعوی عرب، امارات وغیرہ کی جانب سے بیش قیمت تحفےاس ٹارگٹ کے علاوہ ہوں گے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی سے لیکر سعودی عرب اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فوائد بیان کرکے اب قطر کے بعد متحدہ عرب امارات کے ایک روزہ دورہ کرنے کے مراحل میں ہیں۔ یہ ان کی صدارت کے پہلے پانچ ماہ کی کارکردگی کا امریکیوں کیلئے ایک پرکشش معاملہ ہوگا جبکہ امریکاکے داخلی مسائل میں ٹرمپ انتظامیہ مسلسل مسائل اور تنقید کا شکار ہے۔ صدر ٹرمپ پاک بھارت جنگ بندی کے معاملے میں اپنی مداخلت کو خود کو امن پسند اور جنگ کے خلاف ہونے والے امریکی صدر کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ حالانکہ اگر زمینی ، سیاسی اور امریکی خارجہ پالیسی کے حقائق کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے بھارت کی درخواست پر اس کی مرضی سے بھارت کو مزید نقصان اٹھانے سے بچانے کے لئے جنگ بندی کرائی ہے۔