• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر کو ہائیکورٹس کے ججز کے تبادلے کا اختیار، انہیں کوئی مجبور نہیں کرسکتا، جسٹس محمد علی مظہر

اسلام آباد( رپورٹ:رانا مسعود حسین) عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ میں دیگر ہائیکورٹس کے تین ججوں کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلے اور اسی کی روشنی میں مرتب کی گئی سینیارٹی لسٹ سے متعلق آئینی مقدمہ کی سماعت کے دوران درخواست گزار ،ججوں کے وکیل منیر اے ملک نے کہا ہے کہ دیگر ہائیکورٹس سے تین ججوں کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلے کی اصل وجہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کا سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور دیگر ججوں کو لکھا جانے والا خط ہے، خط لکھنے کے بعد ہی تمام جج نشانے پر آ گئے تھے ،جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 200کے تحت صدرمملکت کاہائی کورٹس کے ججز کے تبادلہ کااختیار ہے انہیں کوئی مجبورنہیں کرسکتا، صدر جج سے مشاورت اور رضا مندی حاصل کرنے کے پابند ہیں، جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ خط میں صرف حساس اداروں کی مداخلت کا ذکر کیا گیا ، چھ ججوں کا خط حساس اداروں سے متعلق تھا، موجودہ ججوں کے تبادلوں سے حساس اداروں کا کیا تعلق بنتا ہے؟ کیا سکیورٹی اداروں نے سارا نظام ختم کر کے خود کنٹرول کر لیا ہے؟جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس نعیم اختر افغان،جسٹس شاہد بلال حسن،جسٹس صلاح الدین پنہور اورجسٹس شکیل احمد پر مشتمل پانچ رکنی آئینی بینچ نے بدھ کومقدمہ کی سماعت کی تو منیر اے ملک ایڈوکیٹ نے اپنے گزشتہ دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ تین ججوں کے تبادلے کے حوالے سے حکومت نے جو وجوہات بتائی ہیں؟ وہ مضحکہ خیز ہیں،جوڈیشل کمیشن نے پانچ میں سے دو آسامیوں پر تقرری کی ، حکومت کہتی ہے کہ جوڈیشل کمیشن نے جج نہیں لگائے تو ہم نے لگا دئیے ہیں۔
اہم خبریں سے مزید