اسلام آباد(ایجنسیاں)عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA)نے پاکستان کے تمام جوہری اثاثوں کو محفوظ قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ بھارتی حملوں کے دوران پاکستان کی تمام ایٹمی تنصیبات محفوظ رہیں ‘پاکستان کی جوہری تنصیبات سے کوئی تابکاری خارج نہیں ہوئی جبکہ ترجمان دفترخارجہ نے پاکستانی جوہری ہتھیاروں کے بارے میں بھارتی وزیر دفاع کے ریمارکس کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ آئی اے ای اے اور بین الاقوامی برادری کو بھارت میں جوہری اور تابکار مواد کی بار بار چوری اور غیر قانونی اسمگلنگ کے واقعات کے بارے میں فکر مند ہونا چاہئے‘ادھر بھارتی فوج کا کہنا ہے کہ کنٹرول لائن پر الرٹ کی سطح کو کم کرنے کے لئے پاکستان کے ساتھ اعتمادسازی کے اقدامات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق پاکستان نے اپنے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں بھارتی وزیر دفاع کے بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر تسلط جموں و کشمیر میں دیئے گئے ریمارکس کی شدید مذمت کی ہے۔دفتر خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جمعرات کو جاری بیان کے مطابق یہ غیر ذمہ دارانہ ریمارکس روایتی طریقوں سے بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کے موثر دفاع اور ڈیٹرنس کے حوالے سے ان کی گہری عدم تحفظ اور مایوسی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ خود ساختہ ایٹمی بلیک میل کے بغیر جس کا نئی دہلی کو سامنا ہے، پاکستان کی روایتی صلاحیتیں بھارت کو روکنے کے لئے کافی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی اے ای اے اور بین الاقوامی برادری کو بھارت میں جوہری اور تابکار مواد کی بار بار چوری اور غیر قانونی اسمگلنگ کے واقعات کے بارے میں فکر مند ہونا چاہئے۔ گزشتہ سال بھارت کے دہرادون میں بھابھا اٹامک ریسرچ سنٹر سے مبینہ طور پر چوری ہونے والے تابکار ڈیوائس کے ساتھ پانچ افراد ملے تھے جبکہ اس کے بعد ایک گروہ جس کے پاس ایک انتہائی تابکار اور زہریلا مادہ کیلیفورنیا جس کی مالیت 100 ملین امریکی ڈالر تھی،کا بھی پتہ چل گیا تھا ۔ 2021 میں کیلیفورنیا کی چوری کے تین واقعات بھی رپورٹ ہوئے، یہ بار بار ہونے والے واقعات نئی دہلی کی طرف سے جوہری اور دیگر تابکار مواد کی حفاظت کیلئے اٹھائے گئے اقدامات پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعات بھارت میں حساس، دوہرے استعمال کے مواد کی بلیک مارکیٹ کے وجود کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔دریں اثناءبھارتی فوج کے ایک بیان میں کہا گیا کہ 10 مئی 2025 کو بھارت اور پاکستان کے ڈی جی ایم اوز کے درمیان طے پانے والی مفاہمت کے بعد اعتماد سازی کے اقدامات کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ الرٹ رہنے کی سطح کو کم کیا جا سکے۔