• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرانا گانا تھا ’’چار دن کی چاندنی‘‘، اس کا پچھلے ہفتے نقشہ سعودی عرب میں سفید گھوڑے اور کاسنی قالین کی شکل میں، قطر میں ایک تحفہ قیمتی جہاز کی صورت میں اور متحدہ عرب امارات میں ایئرپورٹ پر موجود استقبالیہ گروپ میں بال لہراتی لڑکیوں کے ساتھ عربی ثقافت پیش کی گئی۔ اس غیرمعمولی پذیرائی کے بدلے ٹریلین ڈالر کی قیمت کے برابر بیشمار اسلحہ اور دیگر دفاعی ضروریات، جنکے بارے میں تفصیل نہ مغرب کے اخباروں اور اینکرز نے بتائیںنہ مشرق کی صحافت میں کوئی جائزہ رہا۔ البتہ ہمسائے میں ،غزہ میں 13لاکھ فلسطینیوں کو بھوکا مارنے کا اسرائیلی منصوبہ قائم رکھا۔ حالانکہ امدادی سامان کے ٹرک موجود تھے مگر اجازت آگے بڑھنے کی نہ ملی۔ اُدھر ٹرمپ صاحب نے واپس جا کر بھی دونوں ملکوں کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی ذہین اور ہنرمند ہیں۔ کشمیر کا ذکر بھی کیا مگر غزہ کےبارے میں ان کی خاموشی اور لاپروائی کی حدوں سے آگے اور اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل کی دُہائی کے باوجود، نیتن یاہو خودسری کرتا رہا۔

ایک بڑا نفسیاتی مسئلہ جو فلسطین اور اسرائیل میں بے انتہا معاہدے ہونے کے باوجود، فلسطینی علاقوں سے انکی زمین چھیننے اور ان کو بے دخل کرنے میں امریکی صدر کی رائے بھی شامل لگتی ہے۔ ایک اور نفرت کا مسئلہ جو تاریخی اور نصابی سطح پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہے کہ ہم پاکستان میں، چاہے بنگلہ دیش قائم ہو کہ کچھ اور ہو، ہر سطح کی تعلیم دو قومی نظریہ، پہلی کلاس سے ماسٹرز تک استاد پڑھاتے رہے اور نصاب بنانے والے میڈیا پر بھی دو قومی نظریہ کی بات دھراتے رہے۔ انڈیا میں گزشتہ 11برس سے مودی کے ہمراہ، سوائے کانگریس کے ساری سیاسی جماعتوں نے ہندوتوا اور آر ایس ایس کی مشن تعلیم میڈیا اور سرکار میں، مسلم دشمنی کی ایسی چلائی کہ اب صرف اجازت ہے تو گائو ماتا اور جے شری رام کہنے کی اور اب پاکستان کے ہاتھوں شکست کو مجبوراً تسلیم کرتے ہوئے، ابھی تک صحافت سے تعمیرات اور تاریخ میں مغلوں کے زمانے کو قطعی نصاب سے نکال دیا گیا ہے۔ اِدھر پاکستان میں یقیناً فوجی کامیابی نے ذرا سا سانس لینے اور خود کو پاکستان کہنے پہ فخر کے احساس کے ساتھ اس احساس کو فروغ دیا ہےکہ اب تک جو نصاب اور معاشیات پڑھائی جاتی رہی۔ حکومت کو نہ صرف نئے بجٹ میں 45فیصد غریب آبادی کیلئے تعلیم و ترقی کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں اور یہ آؤٹ سورس کرنے کے بہانے تعلیمی معیار اور معاشی ترقی کو نئے اقدامات کے ذریعے، ملک بھر کی زرعی اور معاشی حالت کو نیا رنگ اور نئی پالیسی کے ذریعے پنشن والوں اور BISP کے ذریعہ صرف رقم مت دیں۔ ان پر علم اور ہنر کی شرط بھی عائد کریں اور پنشن والے تو سرکار کے کرم کے منتظر رہتے ہیں۔

سینیٹ نے پہلا مستحسن قدم اٹھایا کہ لڑکی کی شادی کسی صورت میں بھی 18 سال سے کم میں مت کی جائے۔ ہر چند مولانا فضل الرحمان جزبز ہو رہے ہیں۔ مگر اس تبدیلیٔ قانون سے قائداعظم کی روح بھی کچھ تسکین پائیگی۔ ایک اور اہم قدم یہ اٹھنا چاہئے کہ سارے ملک میں معذور افراد کا سروے ہو اور جو گھر میں مقید ہیں، انکی بھی جسمانی ضرورت اور اہلیت کو وقیع کرنے کے علاوہ ایک ادارے میں تعلیم اور ہنرمندی کے ایسے مراکز بنائے جائیں کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت روزگار چلائیں، شادی کریں، اپنا خاندان خوش و خرم رکھیں۔

ایک بہت ہی اہم قدم جس کو اٹھانے کیلئے، سروے کے دوران خواتین بالخصوص کہتی رہی ہیں ان میں ڈاکٹرز، نرسز اور ماہرین تعمیرات شامل ہیں ان کا کہنا ہے کہ شادی کے بعد اور بچے ہونے کے درمیان، ہم لوگوں نے نوکری چھوڑ دی تھی، جب بچے 4سال کے ہو جائیں تو ان کیلئے کام کی سہولت دوبارہ فراہم کی جائے، ڈاکٹروں کو تو موجود کلینک میں پارٹ ٹائم کرنے کی ترغیب دی جائے ریٹائرڈ استادوں کو شام کو کام کرنیوالے اسکولوں اور کالجوں میں جگہ دی جائے۔

ہمارے ملک میں پارٹ ٹائم نوکریاں بہت کم ہیں۔ اسوقت تربیت یافتہ تھراپسٹ اور ہمارے یونانی حکمت کے ڈگری یافتہ کو بھی ڈاکٹروں کے برابر تنخواہ اور مراعات ملنی چاہئیں۔ ہم مغرب کے ڈاکٹروں کے کہنے پر تمام پھلوں اور سبزیوں کے بیچ صبح کے ناشتے میں استعمال کرنے لگے ہیں۔ جبکہ ہماری مائیں خربوزوں اور تربوز کے بیج پھینکا نہیں کرتی تھیں۔ انکو بہت اچھی طرح دھو کر، روزہ افطار کرنے کے سامان میں شامل کرتی تھیں۔ آج بھی بوڑھے لوگوں کو ہڈیوں کو مضبوط رکھنے کیلئے، ورزش کے علاوہ آئرن آمیز خوراک کی ترغیب دی جاتی ہے مگر جہاں روٹی کے لالے پڑے ہوں، وہاں بس اچھی نیت ہی کافی ہے۔

اب ایک اور اہم موضوع کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جو عورتیں بوڑھی ہو گئیں۔ انکی اولاد، ملک اور غیر ممالک میں اپنی اولادوں اور مصروفیتوں میں مشغول ہوتی ہے۔ ایسی عورتوں اور مردوں کیلئے سوشل ویلفیئر کے تحت ایسے رضا کار بھرتی کیے جائیں جو اکیلے رہ جانے والے لوگوں کے پاس ہفتے میں ایک دن جا کر، ان کو نہلانے، گھر کو صاف کرنے اور دوائیوں کے علاوہ ضرورت کے مطابق خوراک تیار کر کے رکھ آئیں۔ ہر گھر کا فون نمبر بھی رضاکار اور بزرگوں کے پاس ہر دم ہونا چاہئے کہ وہ کسی ایمرجنسی میں خطرناک صورت حال سے بچ جائیں۔ وہ سارے لوگ جو روز دیگیں بنا کر سیلانی والوں کی طرح مفت دوپہر اور شام کا کھانا فراہم کرتے ہیں مگر ایسے دسترخوانوں میں عورتیں شامل نہیں ہوتیں۔ وہی لوگ عورتوں کے مراکز بھی بنائیں۔ کمپیوٹر کی تعلیم میں کارٹون اور صحت کے متعلق فلمیں دیکھنا وہ خواتین خود سیکھ جائیں۔ یہ نہ ہو کہ انکے گھر کے بچے دادی کو کمپیوٹر استعمال کرنے ہی نہ دیں۔

فوج میں تو ایسے ادارے ہیں جو پنشن کے علاوہ تنہا رہ جانے والے افراد کو تفریحی مصروفیات فراہم کرتے ہیں۔ یہ کام تو علاقے کے امام مسجد ہونا چاہئے۔ وہ تو فجر کی نماز کے بعد مسجد کو لگا تالا نماز کے وقت ہی کھولتے ہیں۔ اظہار الحق کی خدمات سے فائدہ اٹھائیں۔

تازہ ترین