شاید یہ بات کم لوگ جانتے ہیں کہ میڈیکل تجرباتی لیبارٹری میں جب مینڈک کو زندہ لایا جاتا ہے تو اس کو چیر پھاڑ کرنے سے پہلے بے ہوشی کے عمل سے گزارا جاتا ہے جس کیلئے مینڈک کے منہ میں سگریٹ کا تمباکو بھرا جاتا ہے اس سے وہ بے ہوش ہو جاتا ہے اور پھر میڈیکل تجربات کرنے والے سرجن بہ آسانی اسکی چیر پھاڑ کر کے اسکے اندرونی نظاموں کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مینڈک اور انسان کا نظام انہضام یکساں ہے لیکن غور کرنے پر پتہ چلے گا کہ ہضم کرنے کی صلاحیت انسانوں میں مینڈکوں سے کہیں زیادہ ہے۔
ایک سروے کے مطابق دنیا میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد تقریباً ایک ارب 15کروڑ ہے جس میں 45فیصد مرد اور 15فیصد عورتیں شامل ہیں اور اسی تناسب سے دنیا میں ہر روز تقریباً 11ہزار افراد تمباکو نوشی کے سبب سے موت سے ہمکنار ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر تمباکو ہے کیا جس سے لوگ موت خریدتے ہیں؟ اس کا آغاز کب کہاں اور کیسے ہوا میں اپنے حساب سے عرض کرتا ہوں۔
تمباکو کے پتوں کی باقاعدہ دریافت پہلی بار کولمبس نے کیوبا کے سفر کے دوران کی تھی۔ 1492ء میں جب کولمبس کیوبا کے ساحل پر اترا تو وہاں کے باشندوں کو اس نے ان پتوں کو سونگھتے، چباتے اور پیتے دیکھا پھر اس کے رد عمل پر غور کیا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے استعمال کرنے والوں پر ان پتوں کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ 1560ء میں فرانس کے سفیر برائے پرتگال نے قیدی جہاز رانوں سے یہ پتیاں حاصل کیں کیونکہ اسے بتایا گیا تھا کہ ان پتیوں کے لگانے سے زخم مندمل ہو جاتے ہیں اور اس سے السر کا علاج بھی کیا جاتا ہے اس کے علاوہ ان کو وبائی امراض جیسے طاعون وغیرہ سے بچنے کے لیے بھی موثر خیال کیا جاتا تھا۔اس وقت کے ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ یہ نظام ہضم کو درست کرتا ہے اور خون کی صفائی میں معاون ہے۔
کیوبا میں جوا سپین سے ملاح اور جہازی آئے وہ اسپین لوٹتے ہوئے اپنے ساتھ تمباکو کے پتے بھی لے آئے اسکی وجہ سے اسپین، فرانس اور جرمنی میں سگار بننے شروع ہو گئے، یہ 1788ء کی بات ہے۔ ادھر امریکہ کی سرزمین پر سگار بنانے کا پہلا کارخانہ 1821ء میں قائم ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے تمباکو کی وبا نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ تمباکو چین میں استعمال ہوتا ہے اس کے بعد امریکہ کا نمبر آتا ہے اور تیسرے نمبر پر ہمارا ہمسایہ ملک بھارت ہے۔ صرف بھارت میں تقریباً 10ہزار کروڑ روپے تمباکو اور اس کی مختلف شکلوں میں بنا کر اڑا دیے جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں تمباکو نوشی جوں جوں بڑھی اس کے مضر اثرات بھی عیاں ہوتے گئے ،چونکہ میڈیکل سائنس اتنی ترقی یافتہ ہو چکی ہے کہ تمباکو کے مضرات کا تفصیلی جائزہ لے سکے اسلئے انگلستان میں سب سے پہلے (غالباً اٹھارھویں صدی میں) ایک گروپ نے اس کی مخالفت کی۔ بادشاہ جیمز نے تمباکو کے خلاف فرمان جاری کیا۔ امریکہ نے 1960ء میں سگریٹ کے مہلک اثرات کو دیکھتے ہوئے سگریٹ کے پیکٹوں پر ’’سگریٹ پینا صحت کیلئے نقصان دہ ہے‘‘۔ لکھنا لازمی قرار دیا۔ عالمی ادارہ صحت نے 1980ء سے ہی تمباکو نوشی کے خلاف عالمگیر کے پیمانے پر مہم شروع کر دی۔ 1987ء میں اس نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے دفاتر میں سگریٹ پینے پر پابندی عائد کر دی۔ امریکہ ہی میں 1971ء میں ریڈیو اور ٹی وی پر سگریٹ کے اشتہارات پر پابندی لگا دی گئی۔ کینیڈا نے 1980ء میں یہی قانون نافذ کیا۔ آسٹریلیا نے 1987ء میں اپنی تمام ہوائی کمپنیوں میں دوران سفر ہر ایک قسم کا تمباکو پینے پر پابندی عائد کر دی آج یورپ اور امریکہ کی بیشتر ہوائی کمپنیوں کے جہازوں میں مسافروں کو تمباکو نوشی کی قطعی اجازت نہیں۔ اس سے یہ مت سمجھیے کہ تمباکو نوشی صرف جہاز کے مسافروں ہی کو نقصان پہنچاتی ہے گھروں دفتروں میں بھی تمباکو نوشی کے نقصان کا خطرہ لاحق رہتا ہے اور ان میں سب سے بڑا خطرہ کینسر کے موذی مرض کا ہے۔
ایک خبر کے مطابق تمباکو نوشی کرنے والے افراد خانہ کو اسموک فری مکان میں رہنے والوں کی نسبت 4 گنا زیادہ خطرات ہوتے ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ تمباکو نوشی نہ کرنے والے اپنے گھر میں کسی فرد کے تمباکو نوشی کرنے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جو افراد یومیہ 10سے 15سگریٹ پیتے ہیں ان کے افراد خانہ کو نہ پینے والوں کی نسبت 4گنا زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
آخر میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ تازہ تحقیق کے مطابق کسی قسم کے آپریشن سے قبل سگریٹ نوشی ترک کر دینی چاہیے اگر مستقل طور پر ممکن نہ ہو تو کم از کم آپریشن سے آٹھ ہفتے قبل سگریٹ سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔ یہ انکشاف ڈنمارک میں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کی تحقیق کے بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تمباکو نوشی جاری رکھنے والے 52فیصد افراد آپریشن کے بعد مختلف پیچیدگیوں سے دوچار ہوئے جبکہ تمباکو نوشی ترک کرنے والے صرف 18فیصد افراد مختلف مسائل سے دوچار ہوئے ۔
چلو یہ مانا کہ ادنیٰ سا اک چراغ ہوں میں
مگر ہواؤں کو الجھن میں ڈال رکھا ہے