کراچی(سید محمد عسکری) سندھ کے 6تعلیمی بورڈز میں مستقل چیئرمین مقرر کیے جانے کے بعد صوبے کے دو ٹاپ اور حساس تعلیمی بورڈز انٹرمیڈیٹ بورڈ کراچی اور حیدرآباد تعلیمی بورڈمیں مستقل چیئرمین کی تقرری کا عمل روک دیا گیا ہے اور چیف سیکرٹری سندھ کی ہدایت کے باوجود دونوں بورڈز میں مستقل چیئرمین کی تقرری نہیں کی جارہی ہے اور دنوں بہترین بورڈز کو ایڈھاک ازم کی بنیاد پر چلایا جا رہا ہے۔ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کراچی میں چیرمین کے عہدے کا اضافی چارج میٹرک بورڈ کراچی کے چیرمین غلام حسین سہو کے پاس ہے جبکہ بورڈ آف سیکنڈری اینڈ انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن حیدرآباد کے چیرمین کے عہدے کا اضافی چارج محکمہ بورڈز و جامعات کے ایڈیشنل سیکرٹری سہیل انور بلوچ کے پاس ہے۔ تلاش کمیٹی کی جانب سے ان دنوں بورڈز میں مقرر کئے گئے چیرمین حضرات نے جب چیرمین کا عہدہ سنبھالنے سے معذرت کرلی تو محکمہ بورڈز و جامعات نے تلاش کمیٹی کی جانب سے کم نمبروں کے حامل اضافی امیدواروں کے نام چیف سیکرٹری سندھ آصف حیدر شاہ کو بھیجے لیکن چیف سیکرٹری نے صوبے کے دو بہترین بورڈز میں کم نمبروں کے حامل چئیرمین کے عہدے کے امیدواروں کی تقرری پر اتفاق نہیں کیا اور دونوں بورڈز کے چیئرمین کے عہدوں کے لیے ازسرنو اشتہار دینے کی ہدایت کی۔ چیف سیکرٹری سندھ کا موقف تھا کہ سندھ کے باقی بورڈز میں زیادہ نمبر لانے امیدوار چیئرمین مقرر ہوچکے ہیں چنانچہ سندھ کے دو اعلی بورڈز میں کم نمبر لانے والے اضافی امیدواروں کی تقرری کے بجائے نیا اشتہار دیا جائے تاکہ دونوں اعلی بورڈز میں میرٹ پر بہترین امیدوار کا تقرر کیا جاسکے لیکن دو ماہ گزرنے کے باوجود ان دونوں بورڈز کے چئیرمین کے عہدوں کے لیے اشتہار نہیں دیا جارہا ہے جس کی وجہ سے ایک طرف تو چیف سیکرٹری سندھ کی چیئرمین کے عہدے کے لیے اشتہار دینے کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے تو دوسری طرف نہ صرف دونوں بورڈز ایڈھاک ازم کا شکار ہیں بلکہ بورڈز کے معمولات بھی متاثر ہورہے ہیں جس کا اثر انٹرمیڈیٹ اور میٹرک کے نتائج پر بھی پڑ سکتا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دو برس سے بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کراچی میں نتائج کے تناسب میں کمی کی شکایت پیش آرہی ہے جس پر وزیر اعلیٰ سندھ نے ڈاکٹر سروش لودھی کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی تھی جس کی سفارش پر کراچی کے امیدواروں کو طبعیات، کیمیاء اور ریاضی میں اضافی نمبرز دیئے گئے تھے جب کہ حیدرآباد میں سابق چیرمین ڈاکٹر میمن اور ناظم امتحانات مسرور زئی کو نتائج میں تبدیلی کا زمہ زمہ دار قرار دے کر کارروائی کی ہدایت کی گئی تھی۔