پاکستان سپر لیگ کامیابی سے اپنے اختتام کو پہنچی، بڑا سوال مگر وہیں ہے کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کیسے بہتر بنائی جائے۔ یاد رہے کہ کرکٹ پاکستانیوں کیلئے محض ایک کھیل ہی نہیں، ان کی تفریح کےانتہائی محدود ذرائع میں سے ایک بھی ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ جب پاکستانی ٹیم کو کوئی اہم معرکہ درپیش ہوتا ہے، گلگت سے گوادر تک جوش اور ولولے کا ایک ہی معیار دیکھنے میں آتا ہے۔ گویا کسی بھی بیانیے سے بڑھ کر یہ کھیل پوری قوم کو متحد کرنے کا ایک وسیلہ ہے۔ فیصلہ ساز اداروں کو کرکٹ کے معاملات کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے چند اہم توجہ طلب امور درج ذیل ہیں۔
کرکٹ سے قوم کی جذباتی وابستگی کے سبب، بین الاقوامی سطح پر اس میں پےدرپے ناکامیوں پر قوم کا ناراض ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہمارا مجموعی مزاج بھی کچھ ایسا بن چکا ہے کہ ہم ہر معاملے میں جلد بازی اور شدت پسندی سے کام لیتے ہیں۔ کسی کھلاڑی، کپتان یا کوچ کو سر پر بٹھاتے بھی دیر نہیں لگاتے لیکن ناکامی کی صورت میں ایسے نازک وقت میں جب کھلاڑی کو پشت پناہی کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، ہم اس کی حمایت سے دستبردار ہو کر مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو اہم فیصلے محض عوامی آرا کو سامنے رکھ کر نہیں بلکہ ماہرین کی مشاورت سے کرنے چاہئیںاور پھر فوری نتائج سے بے پروا ہو کر ثابت قدمی سے ان پر عمل کرنا چاہئے۔
ہمارے ہاں ٹیم کی کسی بڑی ناکامی کے بعد یہ بھی اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ سارا ملبہ سینئر کھلاڑیوں پر ڈال کر، کرکٹ بورڈ آپریشن کلین اپ یا سرجری کی بات شروع کر دیتا ہے، مطلوبہ نتائج مگر پھر بھی حاصل نہیں ہوتے۔ عرض یہ ہے کہ سیکھنا ایک صبرآزما اور مسلسل عمل کا نام ہے۔ تمام ملک اپنی کرکٹ ٹیمیں اس طرح تشکیل دیتے ہیں کہ سینئر کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ ہی جونیئر کھلاڑیوں کو موقع دیا جاتا ہے۔ یہ جونیئر اپنے سینئر کھلاڑیوں سے سیکھنا شروع کرتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ سینئر کھلاڑیوں کی جگہ لینے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اوریہ سلسلہ یونہی آگے بڑھتا رہتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں سینئر کھلاڑیوں کو یکسر نظر انداز کر کے اچھی ٹیم نہیں بنائی جا سکتی۔
ویسے بھی ہمیں فارم، فٹنس اور کلاس میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایک سینئر کھلاڑی جس کی کلاس مسلمہ ہو ایک خاص وقت میں فارم میں نہ ہو۔ ایسی صورتحال میں اس کھلاڑی کو بغیر کسی نفسیاتی دباؤ کے فارم حاصل کرنے کے مواقع مہیا کیے جانے چاہئیں، نہ کہ اس کی خدمات کو فراموش کر کےاس کے سر پر تلوار لٹکا دی جائے کہ جلد از جلد اچھی کارکردگی دکھاؤ نہیں تو نکال باہر کریں گے۔ ایسا کھلاڑی مزید دباؤ میں آ کر، اپنا قدرتی اسٹائل اور رہی سہی فارم بھی کھو بیٹھتا ہے۔ سرحد کے اُس پار ویرات کوہلی کئی مہینے آؤٹ آف فارم رہا لیکن انڈین کرکٹ بورڈ اور اسکی قوم اسکے پیچھے کھڑی رہی اور پھر ہم نے دیکھا اسی کوہلی نے چیمپئنز ٹرافی بھارت کو جتوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دوسری طرف وطنِ عزیز میں ہم بابر اعظم کے پیچھے لٹھ لے کر پڑے ہوئے ہیں، بھول گئے ہیں کہ حالیہ برسوں میں وہ تمام فارمیٹ کا طویل عرصے تک نمبر ایک بلے باز رہا ہے۔ نوجوان ہے اور اگر اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تو کئی سال کی کرکٹ اب بھی اس میں باقی ہے۔ یہاں اس امر سے انکار نہیں کہ بابر کو بھی کرکٹ کے بدلتے ہوئے مزاج کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی ضرورت ہے اور رن بنانے کی رفتار میں اضافہ کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ، ذاتی کارکردگی سے بڑھ کر اسے ہر بڑے بلے باز کی طرح پِچ پر کھڑے رہ کر اپنی ٹیم کو میچ بھی جتوانا ہوں گے۔
کرکٹ کو ملک میں صحیح معنوں میں فروغ دینے کیلئے ہمیں کلب کرکٹ پر بھی خاص توجہ دینا ہو گی تاکہ اچھے کھلاڑیوں کی نرسری تشکیل پا سکے۔ بصورتِ دیگر ہم پی ایس ایل کھیلنے والے سو دو سو کھلاڑیوں کے چکر میں ہی پھنسے رہیں گے۔ اسی طرح کرکٹ کو کلب کی بنیادی سطح پر منظم کیے بغیر ٹیلنٹ ہنٹ اسکیم یا کوئی اکیڈمی قائم کرنا بھی محض جزوی فوائد ہی دیتے ہیں۔ کلب نہ صرف ابتدائی ایام سے ہی کھلاڑیوں کی تکنیک بہتر بنانے میں مدد کرتے ہیں بلکہ انہیں ٹیلنٹ دکھانے کے مواقع بھی مہیا کرتے ہیں۔
پی سی بی کو یہ بھی چاہئے کہ بڑے بڑے تعمیراتی اور دیگر منصوبوں، مہنگے کوچوں اور سرپرستوں کے بجائے اپنے مالی وسائل ملک بھر میں پھیلا کر شہر شہر قریہ قریہ کرکٹ کے معیاری میدان بنائے اور انہیں تعلیمی اداروں اور کلبوں کے ذریعے آباد کرے۔ ایسے نظام کو وضع کرنے سے ہی فرسٹ کلاس کرکٹ کا معیار بہتر ہو گا اور ایک عمدہ قومی ٹیم تشکیل پائے گی۔
اس امر کی طرف توجہ کی بھی انتہائی ضرورت ہے کہ ملک میں تین اور چار روزہ کرکٹ کو فروغ دیا جائے۔ درست ہے کہ بین الاقوامی سطح پر چھوٹے فارمیٹ کی کرکٹ زیادہ کھیلی جا رہی ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ کھلاڑی لمبے فارمیٹ کی کرکٹ سے ہی صحیح معنوں میں فیضیاب ہوتے ہیں، وکٹ پر کھڑا رہنے کا مزاج بنتا ہے، تکنیک درست ہوتی ہے، شارٹ کیلئے صحیح بال کا انتخاب سیکھتے ہیں۔ بہت سے ماہرین تو لمبے فارمیٹ کی کرکٹ کو ہی اصل کرکٹ گردانتے ہیں۔ اگر کھلاڑی لمبے فارمیٹ کی کرکٹ کھیلنے کے مرحلے سے بخوبی گزر چکے ہوں تو بعد ازاں تیز کھیلنے کے مرحلے کو بھی کامیابی سےعبور کر لیتے ہیں۔
تجاویز تو اور بھی ہو سکتی ہیں مگر یہ وہ کم از کم اقدامات ہیں جو کرکٹ کا قبلہ درست کرنے کیلئے، پی سی بی کو فوری طور پر کرنا ہوں گے۔