• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی-ٹی-آئی آئندہ احتجاج مارگلہ کے پہاڑوں پر کرے گی

گزشتہ چند دنوں سے تحریک انصاف کی صفوں ہڑبونگ مچا ہوا ہے، باہمی اختلافات اس قدر سنگین صورت اختیار کرچکے ہیں کہ ایک دوسرے کی کھلے مخالفت کے علاوہ بھرے مجمع میں پارٹی منشور کی دھجیاں بکھیرتے دکھائی دیتی ہیں یہاں تک کہ اڈیالہ جیل میں بانی سے ملاقات کرکے باہر آنے والا ہر لیڈر میڈیا کی وساطت سے عمران خان سے اپنے اپنے انداز میں عمران خان کے بیانیہ کی’’ توصیق و تردید‘‘ کونے میں لگے رہتے ہیں۔ پارٹی کی راہنماؤں کے درمیان دھیمے انداز میں کافی عرصہ سے ایک بحث جاری تھی جس میں عمران خان کو این-آر-او دلانے کی کوششیں قومی اور بین اقوامی سطح پر تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا اس حوالے سے جواز یہ پیش کیا گیا کہ بانی چیئرمین کے حوصلے ٹوٹ رہے اور طاقت جواب دے چکی ہے اس ضمن میں انہوں ہدائت کی اسٹیبلشمٹ رابطے کرکے ایسے تمام دروازے کھول دیں جہاں سے مذاکرات کی کوئی کرن دکھائی دیتی ہو جبکہ دوسرا فریق جو بانی قائد کے ان دلائل سے متفق نہیں تھا کہ اس مرحلے پر جب عمران خان کی کسی طور رہائی کے امکانات نسبتاً روشن ہیں اس نوعیت کا کوئی بھی پارٹی کے انتشار کا سبب ہو سکتا ہے۔ پارٹی کے ان ذرائع کا اندیشہ کہ پارٹی قیادت ایسا کوئی قدم سوچ سمجھ کر اور باہمی مشاورت کے ساتھ نہ کیا پارٹی کو ناقابل شکست نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے۔ پی-ٹی-آئی کے اندرونی اختلافات کا اشارے پارٹی کے باہر بھی محسوس کئے جارہے ہیں۔گزشتہ ہفتے کے دوران عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان جیل میں اپنے بھائی ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا بات چیت کے دوران عمران خان کی گرفتاری سے استفسار کیا اسٹبلشمینٹ نے کس جرم میں عمران کیوں گرفتار کیا گیا۔’’علیمہ خان میڈیا بات کرتے ہوئے کہا کہ آئیں ساتھ مذاکرات کریں اور بتائیں کہ ہمارا بھائی آپ کون شرط مانے تو اسے رہا کر دیا جائے گا‘‘۔ اس دوران پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان موقع پر پہنچ گئے اور علیمہ خان کی جانب سے اسٹبلشمنٹ کو دی جانی والی آفر کی وضاحت کی اور کہا عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کے جواب میں کہا بانی پی-ٹی-آئی نے اپنی ذات کے لئے کوئی مطالبہ نہیں لیکن سب کچھ عوام کے لئے کر رہے ہیں۔عمران خان کی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں، کوئی خطرہ ہے پی-ٹی-آئی کی اعلیٰ عہدوں سے چمٹے ہوئے ناتجربہ کار، غیر متعلقہ اور غیرسیاسی افراد بانی کے لئے بڑا خطرہ سمجھے جاتے ہیں جن کا واحد مقصد پارٹی کو متحرک اور فعال بنانے کی بجائے عمران خان کو خوش رکھنا اور انہیں رہائی کے خوابوں میں الجھائے رکھنا ہے کیونکہ عمران خان اسی کو عزیز رکھتے ہیں جو ان کے حکم پر اندھے کنویں میں جھلانگ لگانے کا حوصلہ رکھتا ہو لیکن قوم ’’یوتھ سیاسی‘‘ یا اخلاقی تربیت سے بالاتر اور یہ ہجوم ناقابل اصلاح چکی ہے اس لئے اس ہجوم سے خیر کی توقع کرنا، جہالت اور بدتہذیبی اگلی منزل ہے۔اگرچہ عمران خان سے سیاستدانوں اور قریبی رشتہ داروں سے ملنے کے لئے ہفتہ دو دن مختص کئے گئے ہیں لیکن باقی دنوں میں بھی مقدمات کے حوالے مشاورت کے وکلاء اور بانی کے قریبی رشتہ داروں سے ملنے کے لئے اجازت دی جا سکتی ہے۔ملاقاتیوں عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان اپنی دو بہنوں کے ساتھ ملاقات میں شامل ہوتی ہیں اور ان کے بعد عمران خان کے وکلاء اپنی اپنی باری پر میٹنگ کرکے باہر آتے ہیں اور میڈیا ٹاک میں شریک ہوجاتے ۔اگرچہ بانی نے ملاقات کے لئے آنے والے تمام سیاسی اور عدالتی ملاقاتیوں کی اپنے ذہن میں درجہ بندی کر رکھی لیکن اس درجہ بندی کا علم بانی کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں یہی وجہ ہے کہ پی-ٹی-آئی- کا ہر لیڈر یاکوئی کارکن نہیں، یہی وجہ ہے کہ’’قوم یوتھ‘‘ کا ہر لیڈر اور کارکن خود کو یا تو عمران خان کا ہم پلہ سمجھتا یا بانی کا ’’کراؤن پرنس‘‘ مانتا ہے ۔پی-ٹی-آئی کا اندیشہ اس لئے بھی جائز اور بجا ہے کہ پارٹی کے اندر اسی ٹوٹ پھوٹ اور خلفشار سر اٹھانے لگے تھے جب پی- ٹی-آئی ریاست پاکستان اور افواج پاکستان پر حملے کئے اور قومی تنصیبات کو بشانہ بنایا جس اسرائیل اور بھارت سمیت پاکستان کے دشمنوں جشن منائے تھے اور آج علیمہ خان یہ سوال کرتے شرمسار تو ہوتی ہوں گی۔ پی-ٹی-آئی جرات اور بہادری کو بلیک سلام پیش کرنے کو جی کرتا ہے جن قیادت نے

میدان ہمیشہ چھوڑنے اعلان کرتے ہوئے کہا ہے اب لانگ مارچ اور احتجاجی ریلیاں وفاقی دارالحکومت میں داخل نہیں ہوں گی بلکہ ہری پور جو خیبر پختون خوا کا حصہ ہے، کے راستے ماگلہ کی پہاڑیوں تک آئیں اور پہاڑوں پر ہی پرامن احتجاج کرکے واپس ہری پور چلے جائیں گے۔

kk

تازہ ترین