• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ایثار و وفا، قربانی کا روشن مینار

مولانا محمد الیاس گھمن

دنیا میں جب بھی انسانیت گمراہی کا شکار ہوئی، اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو ہدایت کا چراغ لے کر بھیجا۔ ان عظیم شخصیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقام سب سے نمایاں ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے "خلیل اللہ" یعنی اپنا خاص دوست قرار دیا۔ آپ کی پوری زندگی اللہ کی بندگی، سچائی، قربانی، اور دعوتِ توحید کی درخشندہ مثال ہے۔

پاکیزہ بچپن :۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایسے ماحول میں پیدا ہوئے، جہاں ہر طرف بت پرستی رائج تھی۔ آپ کے والد خود بت تراشتے تھے اور ان کی پوجا کو ہی دین سمجھتے تھے، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام چونکہ اللہ کے نبی تھے، اس لیے فطرتِ سلیم، پاکیزہ عقل، اور نورِ نبوت کی روشنی آپ کے ساتھ تھی۔ آپ نے بچپن ہی سے توحید کو پہچان لیا تھا۔ 

نہ کبھی شرک کو تسلیم کیا، نہ ہی اندھی تقلید کا حصہ بنے۔ آپ نے اپنی قوم کو انہی کے انداز میں، دلیل و حکمت کے ساتھ سمجھایا کہ یہ بے جان بت نہ سنتے ہیں، نہ بول سکتے ہیں، اور نہ کسی کو نفع یا نقصان دے سکتے ہیں۔ آپ کا مقصد یہ تھا کہ قوم خود سوچے، سمجھے، اور حق کو قبول کرے۔

حق گوئی و بےباکی:۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سب سے پہلے اپنے والد کو نرم لہجے میں سمجھایا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، لیکن والد نے سختی سے انکار کر دیا۔ قوم نے بھی بات نہ مانی، بلکہ دشمنی پر اتر آئی۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام پیچھے نہ ہٹے۔ 

آپ نے دعوتِ حق جاری رکھی۔ ایک دن آپ نے بتوں کو توڑ کر ایک بڑے بت کے کندھے پر کلہاڑی رکھ دی۔ جب قوم نے شور مچایا تو فرمایا: "اسی بڑے بت سے پوچھو!" اس لاجواب جواب نے قوم کو لمحہ بھر کے لیے خاموش تو کر دیا، مگر ان کا غرور انہیں قبولِ حق سے روک رہا تھا۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق :۔ قوم نے فیصلہ کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلا دیا جائے۔ ایک بڑی آگ جلائی گئی۔ آپ کو منجنیق میں رکھ کر نذر آتش کیاگیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا: "اے آگ! ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی والی بن جا!"یہ معجزہ اس بات کا اعلان تھا کہ اللہ اپنے سچے بندوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔

ہجرتیں، سفر اور دعوتِ دین:۔ جب قوم نے بات نہ مانی، تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے ہجرت فرمائی۔ آپ شام، مصر، اور مکہ مکرمہ کے علاقوں میں گئے۔ جہاں بھی گئے، اللہ کی وحدانیت کا پیغام پہنچایا۔ آپ کی دعوت صرف زبان سے نہیں، بلکہ عمل اور کردار سے بھی تھی۔

تسلیم و رضا کی انتہا:۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑھاپے میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شکل میں بیٹا عطا فرمایا۔ ایک دن آپ کو خواب میں دکھایا گیا کہ آپ اپنے بیٹے کو اللہ کے لیے قربان کر رہے ہیں۔ نبیوں کے خواب سچے ہوتے ہیں، چنانچہ آپ نے بیٹے سے ذکر کیا۔ بیٹے نے جواب دیا:"ابا جان! جو حکم آپ کو ملا ہے، اسے پورا کریں۔ 

آپ ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔"حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کو زمین پر لٹایا، آنکھوں پر پٹی باندھی، اور چھری چلائی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جنت سے ایک مینڈھا بھیج کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بچا لیا اور فرمایا: "اے ابراہیم! تم نے خواب سچ کر دکھایا۔"یہی واقعہ آج "عید الاضحی" کے نام سے دنیا بھر کے مسلمانوں میں یادگار بنا ہوا ہے۔

تعمیر بیت اللہ :۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو حکم دیا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر کریں۔ انہوں نے تعمیر کے بعد دعا کی: "اے اللہ! ہماری یہ خدمت قبول فرما، اور ہماری نسل میں ایک ایسی امت پیدا فرما جو تیری بندگی کرے۔"اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو شرفِ قبولیت عطا فرمایا، اور اسی نسل میں سے حضرت محمدﷺ کو نبی آخر الزماں بنا کر مبعوث فرمایا۔

خلیل اللہ: اللہ کے ہاں بلند مرتبہ:۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نبوت، رسالت، اور خلت (دوستی) کا اعزاز عطا فرمایا۔ قرآن کریم میں ان کا ذکر بارہا آیا، تاکہ ہم ان کی پیروی کریں، ان جیسا صبر، قربانی، سچائی، اور وفاداری اپنے کردار کا حصہ بنائیں۔

اسوۂ ابراہیمی :۔ آج جب دنیا مادیت، خود غرضی اور مفادات کی گہری دلدل میں پھنسی ہوئی ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت ہمیں سکھاتی ہے کہ سچائی کبھی وقتی فائدے سے نہیں، بلکہ ہمیشہ کی کامیابی سے جُڑی ہوتی ہے۔

جو شخص اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ قربان کر دے، وہی اصل کامیاب ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہر قدم ہمیں یہی پیغام دیتا ہے کہ ایمان، قربانی، اور صبر ہی انسان کو اللہ کا پیارا بناتے ہیں۔