• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ناراضی ہماری سانسوں میں شامل ہو چکی ہے۔ یہ ہماری آنکھوں میں مستقل جمی ہوئی وہ نمی ہے جو برسنے سے قاصر ہے، اور ہمارے لہجے میں وہ کرختگی ہے جو الفاظ کو جلانے لگتی ہے۔ ہم ان سوالوں کی اولاد ہیں جن کے جواب کسی کے پاس نہیں، ہم اُن وعدوں کے وارث ہیں جو کبھی وفا نہیں ہوئے، اور ہم ان خوابوں کے مقروض ہیں جو کسی اور نے بیچے تھے مگر ان کی قسطیں ہمیں بھرنی پڑیں۔

اتنے مسائل، جانِ من — تم تو ریاضی کی کتاب لگنے لگی ہو، ہر صفحے پر ایک نیا سوال، ایک نئی الجھن۔ تمہارے وعدے بھی وائی فائی جیسے نکلے۔ دُور جاتے ہی سگنل ختم ہو گئے۔ اتنی مٹھاس ہے تم میں، کہیں شوگر کے ساتھ تو نہیں جی رہے؟ تمہارے لہجے کی مٹھاس بھی کیکر کے پھول جیسی ہے، دیکھنے میں خوشبو، چکھنے میں زہر۔ ہم وہ نسل ہیں جس نے بچپن سے خبریں زیادہ دیکھیں، کارٹون کم۔ ہمارے کھلونوں کی جگہ سیاستدانوں کے جھوٹ اور ٹی وی اینکرز کی چیخیں تھیں۔ ہم نے مٹی سے کھیلنا چھوڑ دیا کیونکہ ہماری زمین خود غیر محفوظ ہو چکی تھی۔مجھے ڈر ہے کہ تمہاری باتوں کا رنگ پہلی بارش میں اتر جائے گا، جیسے سستا رنگین کپڑا، جو نرمی کے لمس میں بھی اپنی حقیقت کھو دیتا ہے۔ اور ہاں، مجھے فون نہیں کرنا چاہیے تھا… مگر کیا کروں؟ کبھی کبھی پرانے زخم جاگ پڑتے ہیں، اور پرانے نمبر اب بھی دل کی ڈائری میں لکھے رہ جاتے ہیں۔سورج کے ساتھ ساتھ رخ بدلتے جا رہے ہو تم — آدمی ہو یا درخت کا سایہ؟ اور میں؟ میں تو صرف وقت گزار رہا تھا، محبت نہیں کی تم سے، مگر افسوس… یہ وقت بھی بیکار چلا گیا۔

ہماری ناراضی کوئی وقتی ردِعمل نہیں، یہ تو ایک مسلسل عمل ہے۔ ایک سلگتا ہوا آتش فشاں جو روزمرہ کی ناانصافیوں سے جلتا رہتا ہے۔ جب کسی بچے کا داخلہ صرف اس لیے نہیں ہوتا کہ اس کے پاس ’’تعلق‘‘ نہیں، جب کسی ذہین لڑکی کو صرف اس لیے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے کہ وہ کسی’’وڈیرا کلچر‘‘ کا حصہ نہیں، تو وہ بچہ، وہ لڑکی، وہ سب، ناراض ہوتے ہیں۔ اور یہی ناراضی پھر خاموش بغاوت میں ڈھلتی ہے۔

ہاں مجھے معلوم ہے کہ مجھ سے کیا غلطی ہوئی۔ میں ایک گرد سے بھرا ہوا آئینہ تھا، مگر گرد جھاڑ دی۔ تمہیں مجھ میں اپنا اصل چہرہ دکھائی دینے لگا، سو تم نے مجھے نیچے پھینک دیا۔ تمہارے لہجے میں جو نرمی ہے نا، وہ چاقو کی دھار جیسی ہے — بے آواز، مگر خونی۔

ہم نے ہر تعلق کو ایک سودا بنتے دیکھا، ہر وعدے کو تجارت، اور ہر خواب کو نوٹوں میں تولتے پایا۔ تمہاری محبت پانچ ہزار کے نوٹ کی طرح تھی، مگر افسوس کہ وہ نوٹ جعلی نکلا۔ تمہارا ساتھ بھی پرانے پنکھے جیسا ہے — جو شور بہت کرتا ہے اور ہوا کم دیتا ہے۔ یہ آنسو نہیں ہیں، تروتازہ دکھنے کے لیے سبزی پر چھڑکا ہوا پانی ہیں۔ وہ سیزنل فروٹ تھا — موسم کے ساتھ بازار سے غائب ہو گیا۔

ہم وہ نسل ہیں جو اپنی آنکھوں سے خواب دیکھنے کے بجائے دوسروں کے خواب خریدنے پر مجبور ہو گئے۔ میں ایک ایسی پیشکش ہوں جسے کوئی ٹھکرا نہیں سکتا، مگر پھر بھی تم نے ٹھکرا دیا۔ اب سیٹ بیلٹ باندھ لو ۔ زندگی کی پرواز اب ہموار نہیں لگتی۔ تمہیں سچ پسند ہے؟ تو سنو… تمہاری محبت سراسر جھوٹ تھی۔

ہم نے دوستی میں استحصال پایا، رشتوں میں تنہائیاں۔ ہمارے آس پاس صرف عقلمندوں کا قحط ہے۔ تم واٹس ایپ گروپ کا وہ نوٹیفکیشن ہو، جسے کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ تم وہ فقرہ ہو جسے بولنے کے بعد سب کو شرمندگی ہوتی ہے۔میرے چراغ، تیری یہ کیسی روشنی ہے؟ میری آنکھیں جل رہی ہیں۔ میں نہیں بدلا، آئینہ دھندلا ہو گیا۔ اُس نے وعدہ کیا تھا ساتھ دینے کا… بس یہ نہیں بتایا تھا، کس کا ساتھ۔ تم وہ خواب ہو جسے جاگتے میں بھی نہیں دیکھنا چاہئے۔

خاموشی نے بہت شور مچایا، مگر ہم بہرے ہو چکے تھے۔ ہم سچ بولتے ہیں، سو دشمن زیادہ اور دوست کم ہیں۔ میں نے جب خواب بیچے، خریدار وہی نکلے جن کے پاس نیند نہیں تھی۔ تم نے ساتھ تو دیا، مگر دیوار بن کے کھڑے رہے۔ بارش نے مجھے بھیگو تو دیا، مگر پیاس نہیں بجھ سکی۔میں رُک گیا تھا، صرف یہ دیکھنے کے لیے… تم کتنی دُور جا سکتے ہو۔ میں ہنستا تھا سب کے سامنے — درد کو چھپانے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ تمہاری خاموشی چیخوں سے زیادہ دردناک تھی — کم سنائی دی، زیادہ محسوس ہوئی۔

یہ جو ہماری تحریریں تمہیں زہر لگتی ہیں، یہ جو ہمارے جملے تمہیں گستاخی لگتے ہیں، ان سب کے پیچھے ایک ہی داستان ہے — ایک ایسی نسل کی، جس نے کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی سب کچھ جھیلا ہے۔ہم ایک ناراض نسل ہیں — کیونکہ ہمیں پیار نہیں، بس توقعات ملی ہیں۔ ہمیں خواب نہیں، بس حساب کتاب ملا ہے۔ اور ہمیں رستہ نہیں، بس تنقید ملی ہے۔مت کہو کہ ہم بگڑ گئے ہیں، یہ بگاڑ تمہاری دی ہوئی وراثت ہے۔ ہم اگر آئینہ نہیں دیکھنا چاہتے، تو اس میں تمہارا چہرہ ہے۔ ہم ایک ناراض نسل ہیں اور شاید اس ناراضی میں ہی ہمارا سب سے بڑا سچ چھپا ہے۔

تازہ ترین