قاضی احمد نورانی صدیقی
دینِ اسلام کی حقّانیت اور انفرادیت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہر دَور میں اسے اپنی ترجمانی کے لیے عظیم اسکالر، محقّق، مبلّغ اور مصنف میسّر آتے رہے ہیں اور یہ پاکیزہ لوگ بغیر کسی دنیاوی منفعت کے صرف رضائے الٰہی کی خاطر اکنافِ عالم میں نبی کریم ﷺ کا پیغامِ حق پھیلاتے رہے۔
ایسے ہی عبقری شخصیات میں حضرت شیخ التبلیغ، سفیر اسلام، شاہ عبدالعلیم صدیقی ؒ کا وجود گزشتہ صدی میں اسلام اور اہل اسلام کے لیے عزت و وقار کا استعارہ اور علامت تھا۔ وہ ایک علمی و روحانی خانوادے کے چشم و چراغ تھے، خاندانی نجابت و شرافت کے اثرات ان کی سوچ اور فکر سے عیاں تھے۔
علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقیؒ15رمضان المبارک 1318ہجری محلّہ مشائخان، میرٹھ میں تولد ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار حضرت علامہ شاہ عبدالحکیم ؒ اپنے وقت کے اکابر علما ءو صوفیاء میں شمار کیے جاتے تھے۔ انھوں نے آپ کی پرورش پر خاص توجہ فرمائی۔ نیز، گھرانے کی تربیت اور ماحول نے طالب علمی کے زمانے سے ہی آپ کو تبلیغ و اشاعت دین، مناظر و مکالمہ مذاہب عالم کے مطالعے کا شوقین بنادیا۔
کتب بینی کے شوق نے آپ کو عربی، فارسی اور اردو کے علاوہ انگریزی زبان کا بھی ماہر بنا دیا۔ مبلّغِ اعظم کاخاندان عرصہ دراز سے طریقت اور روحانیت کا مرکز تھا۔ انہوں نے اپنے بھائی حضرت شاہ احمد مختار احمد صدیقی ؒسے بیعت کی، شدید ریاضتیں کیں، بعد میں قطب عالم حضرت شاہ علی حسین ؒ کچھو چھوی، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلویؒ اور دیگر اکابرین نے آپ کو اجازت و خلافت سے نوازا۔
اس طرح اسلام کے اس بے باک سپاہی اور مبلّغ کے علم و عمل کو جِلا مل گئی۔ قلب عشق رسول کی آماج گاہ بن گیا۔ زبان کو تاثیر حاصل ہوگئی۔ دیار عرب ہو یا عجم، جنوبی امریکا کی غیر ترقی یافتہ قوم ہو یا شمالی امریکا کا جدید سائنسی دور، افریقا کی سنگلاخ زمین ہو یا خشک علاقہ، انڈونیشیا، ملائیشیا اور سنگاپور کے جزائر ہوں یایورپی دنیا کی نام نہاد ترقی یافتہ قوم اسلام کے اس سفیر بے مثال نے تاج دارِ مدنی، آقائے نامدار ﷺ کا پیغام ہر جگہ پہنچایا۔
دنیا کے مختلف حصّوں میں ان کے ہزاروں شاگرد اور لاکھوں مرید ہیں۔ صرف ماریشس میں دس ہزار افراد ان سے وابستہ ہوئے۔ مبلّغِ اسلام کا کارنامہ یہ ہے کہ بغیر کسی سرمایہ، بغیر کسی تنظیم، بغیر کسی جماعت کے تقریباً23سال کی عمر میں تبلیغِ دین کاجو سلسلہ شروع کیا، تو برما، سیلون، سیام، انڈو چائنا، جاپان، ری یونین، عراق، شرقِ اردن، فلسطین، مصر، شام، مڈغاسکر، حجاز، روم، فرانس، انگلستان، برٹش گیانا، ڈچ گیانا، ٹرینڈاڈ، کینیڈا، فلپائن اور سنگاپور سمیت اسلام کا پیغام پہنچانے دنیا کے ان حصّوں میں جاپہنچے، جہاں کا سفر انتہائی دشوار گزار تھا۔ اس دوران سیکڑوں مساجد، مدارس، ادارے، تبلیغی مشن قائم کیے۔
حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقی ؒ نے تحریکِ پاکستان میں مرکزی کردار ادا کیا۔ قیامِ پاکستان کے سلسلے میں آپ کی جدوجہد آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے کہنے پر آپ حج کے موقعے پر سرزمینِ مکّہ معظمہ تشریف لے گئے اور وہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے مسلمانوں کو قیام پاکستان کی اہمیت سے آگاہ کیا۔
علاوہ ازیں آپ نے مفتی اعظم فلسطین، حضرت سید امین الحسینی، قائداخوان المسلمین حسن البناء، اردن کے سربراہ سیّد عبداللہ شاہ اور دیگر عالمی رہنماؤں سے ملاقات کرکے انہیں قیام پاکستان کے مقصد سے آگاہ کیا۔ اسی بناء پر آپ کو سفیرِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کے دوروں کے درمیان آپ نے عالمی شہرت یافتہ سائنس دانوں، زبان پر قدرت رکھنے والوں اور مختلف شعبۂ ہائے زندگی کے افراد سے مکالمے اور مناظرے کیے۔ انگریز مفکّر جارج برنارڈشا سے اسلام کی حقّانیت پر آپ کا مکالمہ تاریخ کا حصّہ ہے۔
حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقیؒ نے مادّہ پرستی، دہریت اور دیگر فتنوں کے ساتھ ساتھ قادیانیت کا بھی مقابلہ کیا۔ انگریزی زبان میں فتنۂ قادیانیت کے خلاف The Mirrorلکھی، اردو زبان میں ’’مرزائی حقیقت کا اظہار‘‘ اور عربی میں قادیانیت کے خلاف کتاب آپ کا وہ کارنامہ ہے، جس کی اشاعت کے بعد ملائیشیا میں مرزائیوں کا داخلہ ممنوع ہوا۔ اس کے علاوہ انگریزی اور اردو میں آپ کی کئی کتابیں موجود ہیں۔
آپ نے اپنے آخری سفرِ حج و زیارتِ مدینہ منورہ کے وقت اپنی نعت کا شعر اس انداز سے پڑھا۔ ’’مدینے جائوں پھر کبھی نہ آئوں..... وہیں پہ یہ قصّہ تمام ہوجائے۔‘‘ اللہ نے اس دعا کو قبول کیا۔ اتوار 23ذی الحجہ1373ہجری مطابق 22اگست 1954ء مدینۃ الرسول میں 63سال کی عمر میں گنبد خضرا کے سامنے آپ کا وصال ہوا۔
قطبِ مدینہ حضرت علامہ ضیاء الدین مدنی نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنّت البقیع میں امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے قدموں میں آپ کو جگہ ملی۔ آپ کے بعد آپ کے تبلیغی و سیاسی مشن کی ذمّے داری آپ کے لائق فرزندقائدِ ملّت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ نے سنبھالی۔ الحمد اللہ، راقم کو اللہ کے فضل و کرم سے طالبانِ حق کو سلسلہ قادریہ علیمیہ میں داخل کرنے کی روحانی اجازت حاصل ہے اور الحمدللہ، فیض علیمی اور فیض نورانی جاری ہے۔