تفہیم المسائل
سوال: میں مکانات کی خرید وفروخت کا کام کرتا ہوں اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مالکِ جائیداد سے ایگریمنٹ کرکے کچھ ایڈوانس دے دیتا ہوں اور وہ مجھے اجازت دے دیتا ہے کہ آپ جائیداد فروخت کرکے مجھے میری طے شدہ رقم دے دو اور مکان کی فروختگی پر جو بھی نفع ہو، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یہ خرید وفروخت باہمی رضامندی سے ہوتی ہے، اس میں کوئی شرعی خرابی تو نہیں ہے ،( سید احمد حسنات، کراچی)
جواب: صورتِ مسئولہ میں آپ یا تو مکان خریدنے والے کے وکیل بن جائیں اور اُس سے اپنی اجرت طے کرلیں، اس صورت میں وکالت کا معاملہ اجارہ کی طرح ہوجائے گا، شرح المُجلّۃ میں ہے: ترجمہ:’’ جب وکالت میں اجرت کی شرط لگادی ہو اور وکیل نے اپنی ذمہ داری پوری کردی تو وہ اجرت کا مستحق ہوجائے گا اور اگر اجرت کی شرط نہ کی ہو اور کسی شخص کو اجرت پر وکیل نہ مقرر کیا ہو (اور وہ کوئی تعاون کرے) تو وہ بطور تبرُّع ہوگا اور اس کے لیے اپنی خدمت پر اجرت کا مطالبہ جائز ہوگا، ( مادہ: 1467،جلد4،ص: 445)‘‘۔
اگر آپ بطور ڈیلر یا کمیشن ایجنٹ کے مکان کی خریدوفروخت کا معاملہ کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ اپنی خدمت اور اس کی اجرت مؤکل پر واضح کریں، مخفی یا مجہول نہ رکھیں بلکہ معین ومعلوم ہونا ضروری ہے۔ امام بخاریؒ کمیشن ایجنٹ کے ساتھ عقد کے جواز کی صورت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’ابن سیرین، عطاء ابراہیم اور حسن بصری کے نزدیک سمسار(کمیشن ایجنٹ) کی اجرت میں کوئی حرج نہیں ہےاور ابن عباسؓ فرماتے ہیں: ایک شخص دوسرے شخص سے کہے: یہ کپڑا اتنے میں بیچ دو، اس سے زیادہ جو رقم تمہیں ملے، وہ تمہاری ہے۔
تابعی ابن سیرین فرماتے ہیں: ایک شخص نے (کمیشن ایجنٹ ) سے کہا: یہ چیز اتنے میں بیچ دو، اس سے زیادہ جو نفع ملے، وہ تمہارا ہے یا ہم دونوں نصف نصف کے حق دار ہوں گے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اہلِ ایمان اپنی شروط کے مطابق (پابند) ہیں، (صحیح بخاری، کتاب الاجارۃ، جلد3، ص:92)‘‘۔ جہاں یہ عُرف رائج ہو تو بطور استحسان یہ جائز ہے۔
آپ کے سوال سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ اپنے گاہک (بائع) کے ساتھ مکان یا پلاٹ کی ایک قیمت طے کرلیتے ہیں اور عقد کرکے کچھ رقم پیشگی دے دیتے ہیں اور وہ آپ کو اس بات کی اجازت دے دیتا ہے کہ اس طے شدہ قیمت سے اوپر جو بھی آپ کو ملے، وہ آپ کا ہے، پس عقد کی یہ صورت جائز ہے، الغرض: ’’فَمَا زَادَ عَلٰی کَذَا وَکَذَا،فَہُوَلَکَ‘‘ کے یہی معنی ہیں اوریہ جائز ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)