• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماضی میں ایسے حالات درپیش رہے ہیں کہ کبھی گنے کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی، ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور قیمتیں بڑھیں۔ذخیرہ اندوزوں نے موقع سے خوب فائدہ اٹھایا۔عوام الناس کی پریشانی الگ۔شوگر ملز مالکان نے چینی ضرورت سے زیادہ قرار دلوا کر حکومتی اجازت سے ایکسپورٹ کر کے ڈالروں میں منافع کمایا اور پھر مہنگے داموں چینی امپورٹ کی گئی۔گزشتہ برس ساڑھے سات لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کے بعد اب پانچ لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کابظاہرجواز یہ پیش کیا گیا ہےکہ عوامی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے قیمتوں میں استحکام کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔وزارت غذائی تحفظ کے مطابق گزشتہ سیزن میں چینی وافر ذخائر ہونے کی وجہ سے برآمد کی گئی تھی۔موجودہ صورتحال میں یہ تاثر غلط ہے کہ عوامی ضروریات کے مطابق چینی کی وافر مقدار موجود نہیں۔اضافی اسٹاک سے قیمتوں میں توازن برقرار رہے گا۔ڈی ریگولیش پالیسی کے تحت زرعی اجناس کی درآمد، برآمد اور قیمتوں میں اتار چڑھائو مارکیٹ فورسز کے مطابق ہوتا ہے۔تمام زرعی اجناس کی خرید و فروخت کا دارومدار سیزن پر منحصر ہے اسے مالی سال سے منسلک کرنا غلط ہے۔چینی کی برآمد پر کسی قسم کی سبسڈی نہیں دی گئی۔وفاقی حکومت نےاس کی برآمد کے وقت فیصلہ کیا تھا کہ ریٹیل قیمت 145 روپے 15 پیسے فی کلو سے زیادہ ہونے پر ایکسپورٹ روک دی جائے گی تاہم دسمبر 2024 سے فروری 2025 کے دوران چینی برآمد بھی ہوتی رہی اور قیمتیں بھی اس دوران بڑھتی رہیں۔ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے کے دوران چینی کی اوسط قیمت میں 3 روپے 77 پیسے فی کلو اضافہ ہوا ہے۔ملک میں چینی کی اوسط قیمت 180 روپے 93 پیسے ہوگئی ہے جو گزشتہ ہفتے 177 روپے 16 پیسے فی کلو تھی۔ایک سال قبل یہ اوسط قیمت 143 روپے 38 پیسے تھی۔عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ قیمتوں میں استحکام کب یقینی ہو گا؟

تازہ ترین