• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میں حاضر ہوں، اے اللّٰہ میں حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں ، سب خوبیاں اور سب نعمتیں تیری ہی ہیں، اور تیرا کوئی شریک نہیں اور سلطنت تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں‘‘۔ پوری دنیا سے مختلف رنگ و نسل اور زبان رکھنے والے جب اللّٰہ کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں تو سب کی زبانوں پر یہی ایک صدا ہوتی ہے۔ مخدوم و مکرم سردار محمد یوسف کو مارچ 2025 میں جب وفاقی وزیر مذہبی امور کا چارج ملا تو مسند سنبھالتے ہی ایک افتاد ان کے سامنے تھی۔نجی حج گروپس نے وقت پر پیسے جمع نہیں کروائے تھے جسکی وجہ سے پاکستان سے صرف 13 ہزار حجاج کو اجازت دی گئی تھی۔ وفاقی وزیر مذہبی امور کی کوششوں اور ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار کی بات چیت کے بعد سردار محمد یوسف نے سعودی عرب کے دو دورے کیے اور اس کے نتیجہ میں 14 ہزار مزید حجاج کرام کو اجازت مل گئی۔ پاکستان میں سعودی سفیر جناب نواف بن سعید المالکی بھی ان سارے انتظامات اور معاملات میں مکمل فعال رہے۔

اس سال کا حج ماضی کے مقابلے میں سب سے منفرد رہا۔سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہدشہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کی سرپرستی میں سعودی حکومت نے حج کے بہترین اور منفرد انتظامات کیے تھے۔ وزیر حج ڈاکٹر توفیق بن ربیعہ ایک فعال منتظم ہیں۔سب سے اہم یہ رہا کہ حج ویزہ کی نہایت سختی سے پابندی کی گئی تھی اور اس کے بنامکہ اور مدینہ میں داخلے کا ہر راستہ مسدود کر دیا گیا تھا۔ اس انتظام سے لاکھوں کی تعداد میں جہاں بلا تصریح حج کرنے والوں کی روک تھام ہو سکی وہاں عازمین حج کو بہت زیادہ آسانی اور سہولت ملی۔ جو کہ وزیراعظم / ولی عہد کا بہت عظیم کارنامہ ہے۔

دنیا بھر سے 238مقامات سے 7ہزار سے زیادہ پروازیں، 4700حرمین ٹرین سفر، 2500 مشاعر ٹرین اور 20 ہزار سے زیادہ بسوں کا انتظام کیا گیا۔ حجاج کرام کی سہولت کیلئے منیٰ میں پہلی بار ڈبل اسٹوری بلڈنگز قائم کی گئیں۔ اس سے عازمین کی گنجائش میں اضافہ اور رہائش کا بہتر اور آرام دہ تجربہ ہوا۔ 40 رہائشی یونٹ 20ہزار مربع میٹر پر قائم کیے گئے۔ 550 واش رومز کے ساتھ یہ منصوبہ سو دنوں میں مکمل ہوا۔

سردار محمد یوسف کو گزشتہ دور حکومت میں 5بہترین حج کروانے کا منفرد اعزاز حاصل ہے۔اس دفعہ پھر خدمت کا موقع ملا، بیشتر انتظامات اس سے قبل ہو چکے تھے لیکن عمل درآمد ان کی سربراہی میں ہوا۔ بہترین حج انتظامات اور عازمین کی خدمت پر سعودی وزارت حج اور عمرہ نے پاکستان حج مشن کو ایکسی لینس ایوارڈ سے نوازا۔ اس سال 88ہزار تین سو سرکاری حجاج سمیت ایک لاکھ 15ہزار پاکستانی عازمین نے فریضہ حج ادا کیا۔ پہلی مرتبہ حاجیوں کو منیٰ میںایئر کنڈیشنڈ خیمے، جپسم بورڈ پارٹیشن، صوفہ کم بیڈ اور اوور ہیڈ شیلف متعارف کروائے گئے، حجاج کیلئے تین وقت کھانا، دو اسنیکس باکس، جوس ، تازہ پھل اور پانی فراہم کیا گیا۔

مدینہ منورہ جہاں ضیاء الرحمن حج منتظم تھے، تمام عازمین حج کو تھری اور فائیو اسٹار ہوٹلز میں قیام کی سہولیات فراہم کی گئیں۔ اس دفعہ ناظم اسکیم متعارف کروائی گئی۔188 عازمین پر ایک ناظم تعینات کیا گیالیکن اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور معاونین کی بجائے حاجیوں میں سے ہی فعال بندے کو ناظم مقرر کیا جائے۔ اور معاونین کو اس ناظم کا معاون مقرر کیا جائے۔

تمام تر سہولیات کے باوجود حج ایک مشکل عبادت ہے۔ سخت مشقت والا کام ہے۔ سردار محمد یوسف کی سربراہی میں جب سفر سعادت شروع کیا۔برادران سردار محمد مشتاق،ملک ندیم ہمارے ساتھی رہے۔ قافلے میں ممبران قومی اسمبلی و سینٹ، ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی سمیت عام اور خاص نے سفید لباس پہنا اور لبیک لبیک کی پکار کرتے ہوئے منیٰ پہنچے۔ سردار محمد یوسف پاکستانی حجاج کے مکاتیب تک پہنچے ، ان کا حال پوچھا، شکایات کا ازالہ کیا۔ چلتے چلتے تھک ہار کر رات کو اپنے خیمے میں پہنچے کہ صبح عرفات روانہ ہونا تھا۔

اس سال حج کا خطبہ حرم شریف کے سینئر امام جناب شیخ صالح بن حمید نے دیا۔ شیخ صالح نہایت متقی، نرم دل اور اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں۔ پاکستان کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ اسلام آباد سے مری جاتے ہوئے راستے میں ایک امام کعبہ مسجد ہے وہ ان ہی کے نام پر ہے اور شیخ صالح نے ہی اس کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ شیخ سے متعدد مرتبہ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ سردار محمد یوسف اور راقم ان کے گھر ریاض بھی گئے ہیں۔

امام کا خطبہ جب بھی سنتے ہیں تو خطبہ حجتہ الوداع ذہن میں آ جاتا ہے۔ خطبہ حجتہ الوداع انسانی حقوق کا عالمی چارٹر ہے۔ اور رہتی دنیا تک کی انسانیت کیلئے رہنمائی اور عمل کیلئے ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ امام صاحب بھی وہی دہرا رہے تھے۔’’کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر‘‘اے اللہ فلسطین کے مسلمانوں کی مدد فرما، اور ان پر مظالم ڈھانے والوں کو تباہ و برباد کر دے۔

مزدلفہ جاتے ہوئے رش کی وجہ سے وزیر مذہبی امور سمیت ہم سب اپنی مقررہ جگہ پر نہ جا سکے۔ کسی اور جگہ ڈیرہ ڈالا، پارلیمانی سیکرٹری سردار شمشیر مزاری، ممبران قومی اسمبلی اظہر قیوم نارہ، ناصر بوسال، سینیٹر عبدالقادر، ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک ظہیر اقبال ، عبدالغفار ڈوگر، تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔کھردری زمین پر دریاں بچھائیں۔ دونوں نمازیں ادا کیں۔ ہاتھ والے بیگ کا تکیہ بنایا اور پر سکون نیند سو گئے۔ مزدلفہ سے جمرات اور پھر قربانی کے بعد شام کو بخار کے باوجود اللہ پاک نے کرم فرمایا اور نہایت آسانی سے طواف زیارت بھی ہو گیا۔

اس سال حج اخراجات دس لاکھ پچاس ہزار تھے۔ سردار محمد یوسف کے گزشتہ تجربے کو دیکھتے ہوئے پاکستانی عازمین بجا طور پر یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ آنے والے سال اخراجات اس سے بھی کم ہوں گے۔ ہم پورے یقین سے کہتے ہیں کہ پاکستان کے بہت سارے مسائل پیکیج کنٹرول سے بھی بہتر ہو سکتے ہیں۔ اگر اس پہلو کو درست کر لیا جائے تو سہولیات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین