• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرقِ وسطیٰ اس وقت جس شدت سے ایک بڑے تصادم کی جانب بڑھ رہا ہے، وہ صرف دو ریاستوں کے مابین ایک وقتی کشیدگی نہیں بلکہ ایک وسیع تر جغرافیائی اور نظریاتی جنگ کے امکانات کو جنم دے رہا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی، جو اب براہِ راست عسکری حملوں میں تبدیل ہو چکی ہے،اب امریکی حملوں کے بعد پورے خطے کاہی نہیں بلکہ دنیاکا امن و استحکام داؤ پر لگ گیا ہے۔ پاکستان، جو ہمیشہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں غیر جانب دار اور اصولی کردار ادا کرتا آیا ہے، اس وقت ایک نہایت نازک مقام پر کھڑا ہے۔ بطور ایک ایٹمی قوت، مسلم دنیا کی اہم ریاست، اور خطے میں تزویراتی حیثیت رکھنے والا ملک، پاکستان کو اس صورتحال میں اپنی حیثیت اور ذمہ داریوں کا بھرپور ادراک ہونا چاہیے۔اسرائیل کا ایران پر حملہ درحقیقت بین الاقوامی قوانین، اقوامِ متحدہ کے چارٹر، اور ریاستی خودمختاری کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ حملہ نہ صرف ایران کی سالمیت پر حملہ ہے بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی ایک دانستہ کوشش ہے۔ اسرائیل کی دفاعی پالیسی ہمیشہ سے جارحانہ رہی ہے، جس کے تحت وہ اپنے ارد گرد موجود کسی بھی طاقتور اسلامی ریاست کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ عراق، لیبیا، شام، اور اب ایران، سب اس پالیسی کا شکار بنے ہیں۔

پاکستانی ریاست اس بات کو بخوبی سمجھتی ہے کہ ایران کی کمزوری صرف ایران تک محدود نہیں رہے گی۔ اسرائیل اور بھارت کے درمیان گہرے دفاعی تعلقات، مشترکہ عسکری مشقیں، ٹیکنالوجی کی منتقلی، اور پاکستان مخالف بیانیے میں ہم آہنگی اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر اسرائیل ایران کو کمزور کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اگلا ہدف پاکستان ہو سکتا ہے۔ اس لیے ایران کے خلاف جنگ کو محض عرب فارس یا مشرقِ وسطیٰ کی لڑائی سمجھنا ایک سنگین غلطی ہو گی۔

پاکستان کو اس وقت ایک محتاط مگر متحرک سفارتی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ بات دنیا پر واضح کرنی ہو گی کہ کسی بھی ریاست کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ ایران کے ایٹمی پروگرام پر عالمی طاقتوں کے اعتراضات اپنی جگہ، مگر اس کا حل صرف اور صرف سفارت کاری ہے، جنگ نہیں۔ ایران پر حملہ دراصل بین الاقوامی اصولوں کا انکار ہے اور اگر آج یہ حملہ برداشت کیا گیا تو کل یہی طریقہ کسی اور ریاست کے خلاف بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کو فوری طور پر اسلامی تعاون تنظیم (OIC)، شنگھائی تعاون تنظیم (SCO)، اور اقوامِ متحدہ میں مؤثر آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ ایک متحدہ ردعمل سامنے آئے۔ سعودی عرب، ترکی، چین اور روس کے ساتھ قریبی مشاورت کے ذریعے ایک سفارتی لائحہ عمل تشکیل دیا جا سکتا ہے جو نہ صرف جنگ کو روکے بلکہ مسئلے کے پرامن حل کی راہ ہموار کرے۔اسرائیل ایران جنگ کے معاشی اثرات بھی پاکستان کیلئے نہایت تشویشناک ہو سکتے ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں پاکستان کی درآمدی لاگت میں اضافہ ہو گا، جس کا براہِ راست اثر عام آدمی کی زندگی پر پڑے گا۔ اس وقت پاکستان پہلے ہی شدید معاشی بحران کا شکار ہے، مہنگائی، بیروزگاری، اور زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی جیسی مشکلات درپیش ہیں۔ ایسے میں مشرقِ وسطیٰ کی کشیدگی مزید بوجھ بن سکتی ہے۔اس کے علاوہ، لاکھوں پاکستانی مزدور جو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور بحرین میں کام کر رہے ہیں، ان کیلئے بھی خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایران کے ساتھ کشیدگی اگر عرب ریاستوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے تو پاکستانی افرادی قوت کیلئے نوکریوں کا حصول مشکل ہو جائے گا، جس کے نتیجے میں ترسیلاتِ زر میں کمی آئےگی۔پاکستان کو اپنی دفاعی تیاریوں پر بھی بھرپور توجہ دینی ہو گی۔ یہ درست ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف دو دہائیوں پر محیط جنگ لڑی ہے، اور ہماری مسلح افواج اور سیکورٹی اداروں کی پیشہ ورانہ مہارت دنیا میں مسلم ہے۔ مگر اس وقت جو جنگی ماحول بن رہا ہے، وہ روایتی اور غیر روایتی دونوں طرز کی تیاریوں کا متقاضی ہے۔ ہمیں صرف مشرقی سرحد ہی نہیں بلکہ مغربی سرحد پر بھی چوکنا رہنا ہو گا، کیونکہ دشمن عناصر اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر ملک میں عدم استحکام پیدا کر سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں داخلی استحکام کو بھی یقینی بنانا ہو گا۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی، قومی یکجہتی، اور میڈیا پر ذمہ دارانہ گفتگو آج پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گئی ہے۔ ہمیں کسی بھی پروپیگنڈے کا شکار ہونے کے بجائے ریاستی اداروں پر اعتماد کرتے ہوئے متحد رہنا ہو گا۔پاکستانی ریاستی مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے قومی مفاد، علاقائی امن، اور بین الاقوامی اصولوں کے تحفظ کو ایک ساتھ لے کر چلیں۔ ہمیں نہ تو کسی جنگ کا حصہ بننا ہے اور نہ ہی غیر جانبداری کی آڑ میں اپنی خارجہ پالیسی کو کمزور کرنا ہے۔ ہماری پالیسی واضح ہونی چاہیے: ہم جارحیت کے خلاف ہیں، ہم سفارتی حل کے حامی ہیں، اور ہم اپنے ہمسایہ ممالک کی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔

آخر میں، یہ بات واضح کرنی ضروری ہے کہ اگر آج مسلم ممالک ایران پر ہونیوالے حملے پر خاموش رہے، تو کل ان پر ہونے والی کسی بھی جارحیت پر دنیا ایسے ہی خاموش رہے گی ۔ اسلئے وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان و دیگر مسلم ملک فعال، مؤثر، اور جرات مندانہ سفارت کاری کے ذریعے ایک اصولی مؤقف اپنائیں اور عالمی برادری کو مجبور کریں کہ وہ جنگ کو روکنے کیلئے فوری اقدامات کرے۔

تازہ ترین