سانحہ سوات ہمارے معاشرے اور حکومتی نظام کی دردناک حیرت انگیز کہانی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے یہاں پر نہ کوئی سرکاری محکمہ ہے اور نہ حکومتی رٹ ہے۔اگر کوئی سرکاری محکمہ ہے تو اس میں کرپشن کرتی کالی بھیڑوں نے سرکاری محکموں کو خدمت کے بجائے زحمت کا استعارہ بنا دیا ہے۔انسانی جان کی اتنی بھی وقعت نہیں کہ اس کے لیے چند دن کا سوگ ہی منا لیاجائے۔ طاقت کے مراکز سے چند سو کلومیٹر دور ضلع سیالکوٹ میں ایک خاندان کے اجڑنے کی صف ماتم بچھی ہوئی ہے،آنکھوں کے سامنے نوجوان بوڑھے بچے بزرگ خواتین، لہروں کی نذر ہوئے لیکن حکومتی سطح پر شرمندگی تک کا احساس موجود نہیں۔پھر سوچتا ہوں کہ ہم ماتم کریں تو کس کس کا؟حکومتی نا اہلی کا؟عوامی بے حسی کا؟ اداروں کی بے توقیری کا؟یا نااہل اور غفلت کا شکار افسر شاہی کا؟ایک ہی دن میں نو افراد سوات میں لہروں کی نذر ہو جاتے ہیں اور اسی دن پاک پتن میں 20 بچے آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے موت کی وادی میں اتر گئے اور ماؤں کی گودیں خالی ہو گئیں،بے حسی اور سنگدلی میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کا باہمی مقابلہ ہے۔سانحہ سوات کے بعد چند افسران معطل ہوئے اور سانحہ پاکپتن کے بعد اسی ہسپتال کے ایم ایس کی سربراہی میں انکوائری کمیشن بنا دیا گیا۔آخر کوئی کتنا ماتم کرے میڈیا کی نظر تو شہباز شریف اور چوہدری نثار کی ملاقاتوں پر ہے اس میں سوات اور پاکپتن کے بچوں کے لیے جگہ کہاں سے نکلے۔ہماری ذاتی ترجیحات بھی کچھ مختلف نہیں سانحہ سوات کے وقت وہ لمحہ تاریخ کے سینے پر ایک داغ بن کر رہ گیا ہے جب بارش کے تسلسل کی وجہ سے دریا کا پانی خطرناک حد تک بڑھ چکا تھا تو لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ایک ہی خاندان کے 15 افراد چھوٹے سے ٹیلے پر پناہ لیے کھڑے رہے،ان کی آنکھوں میں امید کے چراغ بھی تھے لبوں پر دعائیں بھی،دل میں خوف تھا مگر نہ کوئی ہیلی کاپٹر آیا نہ ہی کوئی ریسکیو ٹیم انہیں بچانے آئی بس کچھ لوگ تھے جو موبائل لے کر ان کی ویڈیو بناتے رہے اور لوگوں کی آنکھوں کے سامنے 15 زندگیاں 15 سانسیں پانی میں ڈوب گئیں۔اگر ریاست چاہتی تو 15 لوگوں کو بچا سکتی تھی اگر لوگ چاہتے تو ہاتھ بڑھا سکتے تھے مگر حکومت نے بھی تماشہ دیکھا اور لوگوں نے بھی۔ یہ ہماری اجتماعی بے حسی کا جنازہ اٹھا جسے ہم سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس سانحے نے ہر شخص کا سینہ چھلنی کر دیا ہے۔پورے خاندان کی چیخیں ہمارے کانوں میں گونجتی ہیں، اپنوں کے سامنے ایک ایک کر کے دریا برد ہونےکا دکھ کیا ہوتا یہ کوئی اس خاندان سے پوچھے۔ اگر کوئی مہذب ملک ہوتا تو حکومت مستعفی ہوتی۔وزیر معافی مانگتے۔ لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہ رہی ہے وزیراعظم نے محض تعزیت پر اکتفا فرمایا اور وزیراعلیٰ نے کہا کہ ''میں وہاں جا کر تمبو لگاتا'' ایسے بے حس لوگوں کو اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں۔
پاکستان قدرتی حسن اور معدنی وسائل سے مالا مال ملک ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں پر کسی بھی سطح پر منصوبہ بندی ہنگامی صورتحال سے نپٹنے کا کوئی منصوبہ موجود نہیں۔پنجاب میں ریسکیو 1122 ایک مثالی ادارہ ہے لیکن اس جیسا کوئی ادارہ کسی صوبے میں موجود نہیں۔آخر کب تک ہمارے لوگ قدرتی آفات کے نام پر موت کے گھاٹ اترتے رہیں گے، حکومتیں،ضلعی انتظامیہ، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل، اور دیگر ادارے محض بیانات،تصاویر کے ذریعے خانہ پوری پر اکتفا کرتے ہیں۔یہ سانحہ کوئی نیا نہیں یہ اس المناک سلسلے کی ایک تازہ کڑی ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ ہزاروں افراد بارشوں، سیلابوں، لینڈ سلائیڈنگز اور دریاؤں کے خطرناک بہاؤ کی نذرہو چکے ہیں لیکن کسی بھی حکومت نے آج تک اس حوالے سے کوئی جامع پالیسی وضع نہیں کی،نہ ہی کوئی ہنگامی منصوبہ بندی ترتیب دی گئی اور نہ ہی نچلی سطح پر تربیت یافتہ ریسکیو ٹیموں کا موثر نظام موجود ہے۔ریاست کی بنیادی ذمہ داری عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنانا ہے ہمارے ہاں ہر سال اتنے اداروں کی موجودگی میں عوامی جان و مال دائو پر لگتا ہے اگر دریاؤں میں طغیانی کی پیشگی وارننگ موجود تھی تو عوام کو محفوظ مقامات پر منتقل کیوں نہ کیا گیا،سیاحوں کو خطرناک مقامات پر جانے ہی کیوں دیا گیا، اگر دریا کے کنارے خطرناک تھے تو وہاں داخلے پر پابندی کیوں نہ لگائی گئی، اگر حکومت کو اندازہ تھا کہ موسم خطرناک ہے تو سڑکیں پل اور قیام گاہیں محفوظ کیوں نہ بنائیں گی،کبھی بلوچستان میں سیلاب، کبھی سندھ میں بارشیں، کبھی جنوبی پنجاب میں ندی نالوں کی طغیانی اور خیبر پختون خوا میں دریاؤں کی بے رحمی،ہر واقعہ میں ریاست اور حکومت اپنے کام سے غافل نظر آتی ہے اور جس کا خمیازہ معصوم عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔اگر تحصیل سطح پر ڈیزاسٹر رسپانس فورسز موجود ہوں، مقامی لوگوں کو ریسکیو کے اداروں میں بھرتی کیا جائے تو لوگوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔سوشل میڈیا اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں وائرل ہونے والی ان تصاویر کے بعد کون ان علاقوں کا رخ کرے گا کون ان ہوٹلوں میں آ کر ٹھہرے گا اور کون سوات جیسی خوبصورت وادی کا سفر کرے گا۔ہمیں ایک ایسی قومی سیاحتی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جو صرف کاغذوں میں نہ ہو بلکہ عملی طور پر بھی نظر آئے۔تفریحی مقامات پر جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جائے،سیاحتی مقامات پر ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے انتظامات موجود ہوں، خطرناک علاقوں کی نشاندہی کی جائے عوامی آگاہی مہم چلائی جائے،اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل کیے جائیں بجٹ کا شفاف استعمال اور پھر ادارہ جاتی احتساب کیا جائے تو صورت حال میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ورنہ سیاحت جیسی انڈسٹری سے ہم بتدریج محروم ہو کر رہ جائیں گے۔