• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ کربلا ایک ایسا واقعہ ہے جس کی شدت 1400 سال گزرنے کے بعد بھی کم نہیں ہوئی۔ آج بھی جب نواسہ رسول سیدنا امام حسینؓ اور آپ کے خاندان کی قربانیوں کا تذکرہ ہوتا ہے تو جذبات ابل پڑتے ہیں اور آنکھوں سے آنسو کی ندیاں رواں ہو جاتی ہیں۔ تمام مکاتب فکر بلکہ تمام مذاہب کے لوگ امام عالی مقام امام حسینؓ کی قربانی کو یاد رکھتے ہیں۔ سیدنا امام حسینؓ نے اسوہ رسول ﷺ کی حفاظت کیلئے اس وقت کی حکومت سے ٹکر لیکر اپنی جان قربان کر دی لیکن اپنے نانا کے دین اور دینی اقدار پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔ یہ آپ کا ایسا کارنامہ ہے جسکی وجہ سے اسلام کی بنیادیں مضبوط ہوئیں اور کفر کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونے کا حوصلہ اہل اسلام کو نصیب ہوا۔دنیا بھر میں ہر سال محرم الحرام کے ایام روایتی عقیدت و احترام سے منائے جاتے ہیں۔

برصغیر (پاک و ہند) میں محرم کی مجالس، عزاداری، ماتم، تعزیے اور ذوالجناح کے جلوس مغل دور سے شروع ہوئے۔سلطان دہلی اور بعد ازاں مغل حکمرانوں نے محرم کے ایام کو عزت و احترام سے منایالکھنؤ محرم کی مجالس اور عزاداری کا مرکز رہا۔نوابانِ اودھ نے محرم کی تقریبات کو سرکاری سرپرستی دی۔تعزیے، علم، مجالس، مرثیے، نوحے، اور ماتمی جلوس انہی ادوار میں باقاعدہ رسم بنے۔قیام پاکستان کے بعد محرم کی عزاداری زیادہ منظم ہوئی۔کراچی، لاہور، ملتان، پشاور، کوئٹہ اور دیگر شہروں میں مجالس و جلوس بڑی تعداد میں ہوتے ہیں۔حکومت کی جانب سے سیکورٹی، چھٹی اور انتظامات کیے جانے لگے ۔ہندوستان میں آج بھی لکھنؤ، حیدرآباد، دہلی، ممبئی، اور دیگر شہروں میں شیعہ اور سنی مسلمان محرم میں بھرپور شرکت کرتے ہیں۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی عشرہ محرم الحرام اپنی منفرد روایات کے ساتھ منایا جاتا ہے اگر ہم ماضی کا جائزہ لیں تو برصغیر میں باہمی رواداری امن و امان کے کلچر کی طویل تاریخ ہے۔محرم الحرام میں شیعہ سنی مل کر جلوسوں کا اہتمام کرتے اور یہی رواداری اور محبت کی کیفیت میلاد النبی ﷺ کے جلوسوں میں دیکھنے کو ملتی ، سنی مساجد اور امام بارگاہیں قریب قریب واقع ہوتیں۔ ایک ہی محلے اور ایک ہی شہر میں دونوں مسالک کے لوگ انتہائی محبت اور احترام کے ساتھ اپنا وقت گزارتے تھے سنیوں کی تقاریب میں اہل تشیع شرکت کرتے جبکہ اہل تشیع کی مجالس میں اہل سنت بھی کثرت سے شریک ہوتے تھے۔علماء اور ذاکرین اپنی اپنی فقہ کے مطابق مصائب امام عالی مقام بیان کرتے۔تمام مکاتب فکر کے لوگ بڑے بڑے اجتماعات منعقد کرتے لیکن نہ تو راستے بند کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی اور نہ خاردار تاریں لگائی جاتیں۔ایک غیر تحریری ضابطہ اخلاق پر عمل ہوتا۔علمی مباحث ہوتے۔مناظرے ہوتے،دلیل کا جواب دلیل سے دیا جاتا۔لائوڈا سپیکر پر پابندی عائد نہ ہوتی۔اور ایسا کئی مرتبہ ہوا کہ سنی جلسوں میں اہل تشیع کے لوگوں نے کھڑے ہوکر سوال و جواب کیے لیکن امن و امان کی صورتحال کبھی خراب نہ ہوئی۔پھر 80 کی دہائی کے آخر میں ملک میں فتنہ و فساد کی آگ پھوٹ پڑی ہمسایہ ممالک کی دخل اندازی اور اپنوں کی احمقانہ پالیسیوں کی وجہ سے گلی گلی محلے محلے میں فسادات پھوٹ پڑے،کرفیو لگے، گرفتاریاں ہوئیں، مقدمات درج ہوئے نئے نئے ضابطے بنائے گئے، دفعہ 144نافذ کی گئی، لاؤڈ اسپیکر پر پابندیاں لگ گئیں،محرم الحرام میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آنا جانا مشکل بنا دیا گیا، امام بارگاہوں اور مساجد میں دھماکے ہونے لگے جس کی وجہ سے بے گناہ اور معصوم لوگ موت کے گھاٹ اتر گئے،محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی پورے ملک میں ہنگامی حالت طاری ہو جاتی، جب موبائل فون کا دور آیا تو موبائل فون بند کیے جانے لگے اور دہشت گردی روکنے کا سب سے آسان نسخہ یہ تصور کیا جانے لگا کہ ڈبل سواری پر پابندی عائد کر دی جاتی الغرض ہر وہ کام کیا جاتا جس سے عوام مشکل میں پڑتے۔تاہم بڑے عرصے بعد اس سال محرم الحرام میں یہ دیکھنے کو ملا کہ پنجاب کی حد تک بہت کم علاقوں میں موبائل سگنل بند کیے گئے،آمد و رفت میں رکاوٹیں کم سے کم ڈالی گئیں، سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ معمول کے مطابق چلتی رہی،شہروں کے اندر محرم کے جلوس اپنے روایتی راستوں سے گزرتے رہے،صفائی کے عملے نے اپنی بھرپور خدمات پیش کیں اور سیکورٹی اداروں نے بھی بہترین انداز میں امن و امان قائم رکھنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ بڑے عرصے کے بعد یہ ایک ایسا محرم تھا جس میں ہیجانی کیفیت نہ تھی، عوام اپنے معمول کے مطابق روزمرہ کے معمولات میں مصروف رہے، ایک ہی جگہ پر اہل سنت کے لوگوں نے سبیلیں لگائی ہوئی تھیں اور اہل تشیع کے جلوس گزرتے رہے۔محرم الحرام کو پرامن طریقے سے گزارنے میں جہاں حکومت پنجاب اور سیکورٹی اداروں نے اپنا موثر کردار ادا کیا وہاں پر علماء کرام، امن کمیٹیوں، سول سوسائٹی نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ مجالس کی انتظامیہ نے ایسے ذاکروں کو اپنے شہروں میں آنے کی اجازت نہیں دی کہ جن کی تقریروں کی وجہ سے شہر میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو۔ اس دفعہ سائبر پٹرولنگ بھی موثر انداز میں جاری رہی، سوشل میڈیا پر صحابہ کرام اہل بیت کرام کے متعلق کوئی بھی غلط پوسٹ اپ لوڈ ہوئی تو فورا اس پر گرفت ہوئی، نامناسب گفتگو کرنے والوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کو گرفتار کیا گیا، ریاست نے اپنی رٹ قائم کی۔ ہم سال کے 360دن بغیر کسی فرقہ وارانہ تفریق کے گزارتے ہیں اسی طرح یہ دس دن بھی بغیر تفریق کے گزارنے چاہئیں۔ ایک مثالی پر امن معاشرہ تبھی تشکیل پا سکتا ہے جب سول سوسائٹی،علما اور تمام طبقات اپنا موثر مگر مثبت کردار ادا کرتے رہیںاور حکومتی رٹ پسند ناپسند کی تفریق کیے بغیر نافذ کی جائے۔

تازہ ترین