ایک ہفتہ پہلے میری نظر سے ایک ایسی خبر گزری جس سے میرا دِل خوشی سے بلیوں اچھلنے لگا اور میرا سر فخر سے بلند ہوتا گیا۔ خبر یہ تھی کہ مراکش کے شہر رباط میں ہمارے محترم دوست اور پاکستان میں منصوبہ بندی اور تعمیر و ترقی کے وزیر پروفیسر احسن اقبال کو اُنکی غیرمعمولی خدمات کے اعتراف میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا۔ اِس ایوارڈ کی خاص اہمیت یہ ہے کہ وہ مسلم یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کی طرف سے اسلامک ورلڈ ایجوکیشنل سائنٹفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن (آئی سیسکو) کے زیرِاہتمام دیا گیا۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک ایسا جداگانہ واقعہ ہے جس نے پروفیسر احسن اقبال کیساتھ ساتھ پاکستان کے وقار میں بھی زبردست اضافہ کیا ہے۔
جناب احسن اقبال سے ایک نظریاتی اور خاندانی تعلق اُس وقت قائم ہو گیا تھا جب وہ اِنجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اور اِسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ تھے۔ وہ اکثر اُردوڈائجسٹ کے دفتر سمن آباد میں آتے اور مختلف مسائل پر تبادلۂ خیال کرتے۔ وہ ڈاکٹر محمد اقبال اور سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر سے بےحد متاثر تھے اور اِسلام کو ایک عظیم تمدنی طاقت کے طور پر دیکھتے تھے۔ اُنہی دنوں اُن کی والدہ محترمہ نثارفاطمہ اور میری ہمشیرہ عجوبہ بیگم مولانا امین احسن اصلاحی سے قرآن کی تفسیر پڑھ رہی تھیں۔ یہ سلسلہ کوئی دو سال تک جاری رہا۔ مولانا اصلاحی رحمٰن پورہ میں رہائش پذیر تھے اور ہماری رہائش بھی اِسی بستی میں تھی جبکہ احسن اقبال فاضلیہ کالونی میں رہتے تھے۔ اُن کی والدہ ہمارے گھر آ جاتیں اور میری ہمشیرہ کے ساتھ تفسیر پڑھنے جاتیں۔ اِس طرح دو خاندانوں میں ہم آہنگی بڑھتی گئی جو اَللہ کے فضل سے آج بھی قائم ہے کیونکہ ہم ایک ہی منزل کے راہی ہیں۔ یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ آگے چل کر محترمہ نثارفاطمہ جماعتِ اسلامی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں اور اِسلامی نظام کے نفاذ کے سلسلے میں بہت سرگرم رہیں۔
یہی وہ زمانہ تھا جب پائنا (پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیشنل افیئرز) میں قومی موضوعات پر تسلسل کیساتھ سیمینار منعقد ہوتے جن میں پورے پاکستان سے اہلِ فکرونظر حصّہ لیتے۔ اُن سیمیناروں میں احسن اقبال بھی شریک ہوتے۔ وہ اَفکارِ تازہ کو بڑی اہمیت دیتے اور اِس خیال کا پرچار کرتے کہ مسلمانوں کو اَپنی اصل میراث کی حفاظت کرنا اور جدید تصوّرات کو فروغ دینا چاہئے۔ وہ اَپنے دل میں نوجوانوں کی صلاحیتوں کو نشوونما دینے کی ایک گونہ تڑپ رکھتے تھے۔ اُنہوں نے امریکہ کی ایک ممتاز یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی جس کی بدولت اُنہیں مسائل کا حل تلاش کرنے کی غیرمعمولی استعداد حاصل ہوئی۔ عملی زندگی میں قدم رکھا، تو وہ مسلم لیگ نون میں شامل ہو گئے اور ۱۹۹۷ء میں وزارت کے منصب تک جا پہنچے۔ اُنہیں منصوبہ بندی کا قلمدان سونپا گیا۔ اُنہوں نے علم و تحقیق اور تخلیق کے کلچر کو فروغ دینے پر خصوصی توجہ دی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اُنہوں نے اپنی وزارت کے تحت ۱۹۹۸ء میں بہت بڑی قومی کانفرنس منعقد کی جس میں علم کی بنیاد پر قومی ترقی اور تعمیر کا منصوبہ پیش کیا۔ اُس پر کئی روز غوروفکر ہوتا رہا۔ پھر اُنہوں نے بحث سمیٹتے ہوئے پاکستان میں دس سالہ ترقی کا مکمل خاکہ ترتیب دیا جس میں اعلیٰ تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی میں پیشرفت کو مرکزی اہمیت دی گئی تھی۔ وہ اِس امر پر بھی پختہ یقین رکھتے ہیں کہ معاشرے کی تشکیل میں اخلاقی اور نظریاتی قوت کلیدی کردار اَدا کرتی ہے۔
جناب احسن اقبال ۱۹۹۷ء سے، کچھ وقفوں کے سوا وَزیرِ منصوبہ بندی چلے آ رہے ہیں۔ غالباً اُنہیں کسی اور وَزارت میں کوئی دلچسپی ہی نہیں۔ بنیادی طور پر اُن کی کوششوں سے اعلیٰ تعلیم کو قابلِ ذکر فروغ ملا ہے۔ ملک میں پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ یونیورسٹیوں کی تعداد بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ اِس طرح وسائل میں کمی کے باوجود علم و تحقیق کے لیے ایک ماحول پیدا ہوا ہے۔ اُنہوں نے مختلف ذرائع سے اسلامی ملکوں میں بھی یہی شعور بیدار کرنے کی مسلسل کوشش کی ہے کہ ہماری علمی میراث وہ پہلی وحی ہے جو اَللہ کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوئی تھی جس میں ’اقرا‘ کا حکم صادر کیا گیا تھا۔ اِس اعتبار سے ’اقرا‘ ہمارے ایمان کے علاوہ ہماری تہذیب کا ایک ناگزیر حصّہ ہے۔ جناب احسن اقبال ۱۹۹۷ء سے اِس روح کو تازہ رَکھنے کی سرتوڑ کوشش کرتے آئے ہیں اور اِسی کوشش کو رباط میں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ اُنہیں جو ایوارڈ ملا ہے، اُس میں اُن کی اِنہی عظیم الشان خدمات کا اعتراف موجود ہے کہ اُنہوں نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کو فروغ دینے کے علاوہ پورے عالمِ اسلام کے لیے ایک متحرک فکری رہنما کا کردار اَدا کیا ہے۔
اُنہیں جس تقریب میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ عطا ہوا، اُس میں پوری اسلامی دنیا سے ۷۵ سے زائد وائس چانسلر تشریف فرما تھے۔ اُس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر احسن اقبال نے پورےا عتماد سے کہا کہ تہذیبیں اینٹ، پتھر اور قدرتی وسائل سے وجود میں نہیں آتیں، وہ تو اِیمان کی قوت، علم کی طاقت اور تخلیقی صلاحیت سے نشوونما پاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر یقین مسلم تہذیب کی روح ہے جس کی حفاظت ازبس ضروری ہے۔ مسلمانوں کو اقوامِ عالم میں ایک بلند مقام بنانے کے لیے جدتِ طبع اور سائنسی فکر سے کام لینا اور دَانش مندی کی دولت سے فیض یاب ہونے کا ماحول پیدا کرنا ہو گا۔ اُنہوں نے تجویز دی کہ آئی سیسکو کے تحت مسلم یونیورسٹیوں کے مابین زیادہ سے زیادہ تعاون اور اِشتراکِ عمل کے پروگرام وضع کیے جائیں۔ مصنوعی ذہانت، اسلامی مالیات اور ماحولیات کی ٹیکنالوجی میں اعلیٰ معیار کے مراکز اور اَعلیٰ درجے کی لائبریریاں قائم کی جائیں۔ اِسی طرح نوجوانوں کیلئے اعلیٰ پائے کی کونسلوں کا ایک جال بچھا دیا جائے۔ جناب احسن اقبال ایک جدید علمی انقلاب اور پورے عالمِ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے داعی ہیں۔ پوری قوم بیدار مغز اور رَوشن ضمیر پروفیسر احسن اقبال کو مبارک باد پیش کرتی ہے اور اُمید رکھتی ہے کہ وُہ عناصر جو معاشرے میں انتہا درجے کی مایوسی پھیلانے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں، اُنہیں اپنا طرزِعمل تبدیل کرنا ہو گا۔ ہمیں یقین ہے کہ آخرکار مثبت سوچ کے حامل عناصر ہی کامیاب ہوں گے کیونکہ خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی۔