پچھلے چند روز سے’’شیطن یاہو‘‘ امریکہ میں چھپے بیٹھے ہیں۔ غزہ جنگ بندی کے حوالے سے ان کی قریباً تمام شرائط مسترد ہو گئیں۔موراگ راہداری ہو یا غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کا معاملہ،قطر، سعودی عرب،عرب امارات اور مصر کی جانب سے غزہ میں افواج بھیجنے کے لیے مستقل جنگ بندی اور دو ریاستی حل پر اصرار۔ صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم سے متعدد ملاقاتوں میں کوئی واضح لائحہ عمل طے نہ ہو سکنے کے باعث "شیطن یاہو" واپس جا کر اپنی کابینہ کے شدت پسندوں کا کیسے سامنا کریں گے؟ معلوم ہوتا ہے کہ اب معاملات "شیطن یاہو" کی گرفت سے نکل چکے ہیں۔ یہ بات اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکہ و اسرائیل اپنی تمام جنگوں میں بری طرح سے شکست کھا چکے ہیں۔ ماضی میں بھی امریکہ نے کوئی جنگ لڑ کر جیتی نہ اسرائیل نے! ماسوائے خفیہ دہشت گردانہ وارداتوں، نہتوں پر بمباری سے تباہی و بربادی پھیلا کر۔ صدر ٹرمپ نے پچھلے ہفتے میں بارہا اعلان کردہ پالیسیوں پر یو ٹرن لیا جیسے یوکرائن کو پیٹریات میزائل اور دیگر اسلحہ فراہم کرنے کا اعلان کرکے نیٹو ممالک پر بل ڈال دیا ۔ برکس پر 10فیصد مزید ٹیرف کے اعلان سے ممبر ممالک کو ڈراوا دے کر جبکہ پہلی اگست سے باقی ممالک پر ٹیرف میں عارضی چھوٹ بھی ختم کر دی ۔ ٹرمپ کی یمنی ہاتھوں اسرائیل جاننے والے دو بحری جہاز ڈبوئے جانے پر خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ امریکی سلطنت تیزی سے کمزور ہو رہی ہے خصوصا ً ٹرمپ کی غیر سنجیدہ اور غیر متوازن پالیسیاں سلطنت کے زوال میں تیزی کا سبب بن رہی ہیں۔ انہیں ادراک نہیں کہ 35 سال پہلے کی دنیا جب امریکہ واحد سپر پاور بن کر ابھرا تھا اب ویسی نہیں رہی۔ دنیا کے دیگر ممالک بھی اب عسکری، معاشی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت ترقی کر چکے ہیں۔ اقوام ِعالم تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور اپنے دیرپا مفادات کے تناظر میں مستقبل کے لائحہ عمل طے کر رہے ہیں۔ ادھر اقوامِ متحدہ کی خصوصی رپورٹر برائے انسانی حقوق فرانچسکا البنیز نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا کہ دنیا کی مختلف کمپنیاں اور تجارتی مراکز، اسرائیلی صیہونی حکومت کی فلسطینی زمینوں پر ناجائز قبضے، اپارتھائڈ اور غزہ میں مسلسل نسل کشی سے بھر پور مالی فائدے اٹھا رہے ہیں اور ان کے ناموں کی فہرست بھی جاری کر دی۔ امریکہ نے سخت ردِ عمل دیتے ہوئے فرانچسکا البنیز پر پابندی لگانے اور ویزہ ختم کرنے کا اعلان کیا جو عالمی قوانین پر حملہ آوروں کے حق میں اور فلسطینیوں کے انسانی حقوق کے حامیوں کو خاموش کرانے پر مبنی ٹرمپ کی پالیسی کا تسلسل ہے ۔ امریکہ کچھ عرصے سے اقوامِ متحدہ کے منشور پر اپنے زور و طاقت اور اثر رسوخ سے بتدریج عمل درآمد میں رکاوٹیں ڈال کر اسے غیر مؤثر کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ ایسے خوفناک اور عالمی قوانین سے بغاوت پر مبنی فیصلے کر رہے ہیں جن سے ان کی مسلمان دشمنی و مظلوم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی نسل کشی اور واحد ریاست اسرائیل بنانے میں جانبداری واضح ہوگئی ہے۔ ایران پر اسرائیلی جارحیت اور انکے 70سے زیادہ اعلیٰ عہدے داروں کی شہادت کے باوجود رجیم چینج میں ناکامی پر امریکہ کا بی ـ ٹو بمبار طیاروں سے حملہ آور ہونا ثابت کرتا ہے کہ اسرائیل امریکہ کا بگڑا ہوا بغل بچہ ہے۔ اب تک صدر ٹرمپ نے’’شیطن یاہو‘‘ کی جھوٹی خبروں اور مشوروں پر جو بھی قدم اٹھایا وہ الٹا پڑا۔ جیسے ایران پر امریکی حملے کے بعد ٹرمپ نے ایرانی جوہری صلاحیت کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے جائے وقوع پر اسرائیلی ایجنٹوں کی تصدیق کا بتایا لیکن بعد ازاں امریکی انٹیلیجنس اداروں سے رپورٹ لیک کروائی کہ ایران کی جوہری صلاحیت کو صرف عارضی دھچکا لگا ہے۔ بعینی یمن پر اسرائیلی ایماء پر امریکی حملوں میں ناکامی ہونے کی صورت میں امریکہ نے بمشکل اپنی ساکھ بچائی۔ ڈونلڈ ٹرمپ قوتِ فیصلہ سے مالا مال لیکن کانوں کے کچے ہیں۔ جلد بازی میں بنا سوچے سمجھے فیصلے لینے کے بعد انہیں تبدیل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ادھر یورپ کا بھی یہ حال ہے کہ زبانی طور پر وہ فلسطین کے ساتھ ہیں جبکہ مالی طور پر اسرائیل کے اور یہی وہ حق و سچ کی خلیج ہے جسے وہ پار نہیں کر پا رہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے پچھلے دورِ حکومت میں بیشتر عرب ممالک پر دباؤ ڈال کر انہیں فلسطین کے معاملے میں غیر جانبدار بنا دیا تھا۔ اپنے یہودی داماد جیرڈ کشنر کے ساتھ مل کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بھرپور کوششیں کرتے رہے حتیٰ کہ یروشلم کو اسرائیلی دارالخلافہ تک تسلیم کرلیا۔ پاکستان پر اس وقت بہت دباؤ ڈالا گیا ، ہمارے چند وزراء اور مشیران نے اسرائیل کے خفیہ دورے بھی کیے لیکن بھر پور عوامی رد ِعمل کے پیشِ نظر حکومت وقت میں ایسا کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ آج ہمارے بہت سے اسرائیلی ہمدرد ،مسلمانوں اور فلسطینیوں کی نسل کشی پر یکسر بے حس ،ذاتی مفادات کا غلام طبقہ جس میں پاکستان کی ریاستی پالیسی سے نابلد سیاست دان، میڈیا اور چند جعلی دانشور بھی شامل ہیں آئے روز سوشل میڈیا پر بیانات اور خبریں چلا رہے ہیں کہ پاکستان جلد ہی’’ابراہم اکارڈ‘‘ میں شامل ہو جائے گا۔ جواز دیا جا رہا ہے کہ مسجدِ اقصیٰ ’’الحرم الشریف‘‘تو عربوں اور صیہونیوں کے درمیان زمینی تنازع ہے لہٰذا اگر عرب راضی ہیں تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ بات حقیقت پر مبنی نہیں بلکہ مسجدِ اقصیٰ ہمارا قبلۂ اوّل ہے جس کی حفاظت کرنا ایسے ہی ہمارے ایمان کا حصہ ہے جیسے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی۔ ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے۔اگست 2020میں ’’ابراہم اکارڈ‘‘ متحدہ عرب امارت اور اسرائیل کے درمیان وائٹ ہاؤس میں کرایا گیا بعد ازاں بحرین اور سوڈان بھی اس میں شامل ہو گئے۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کو متحدہ عرب امارات میں علاقائی ہیڈ کوارٹر بنانے کی اجازت اور اسرائیلی شہریوں کے لیے ویزے کی شرط ختم کر دی گئی یعنی اب عرب امارات میں موساد کھل کر فعال ہے۔’’ابراہم اکارڈ‘‘ ایسا معاہدہ ہے جس کی بنیاد میں نا انصافی ہے۔ اسرائیل جو فلسطین کے85 فیصد رقبے پر ناجائز قابض ہے، فلسطینیوں کو بقایا 15 فیصد بخش دینے کو’’ڈیل آف دی سینچری‘‘ بتا رہا ہے۔ جب اقوام متحدہ اپنی 77 سالہ پرانی قراردادوں پر جان بوجھ کر عمل نہیں کرائے، جب ظالم کے ساتھ سب کھڑے ہوں اور مظلوم کو مارا اور دبایا جائے تو کیسے’’ابراہم اکارڈ‘‘قبول کیا جاسکتا ہے۔
نظریۂ پاکستان کی روشنی میں ہماری ریاستی پالیسی شروع سے واضح ہے۔ قائدِ اعظم ؒنے اس وقت مالی کسمپرسی کے عالم میں بھی1948 کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کو چیکوسلواکیہ سے 250,000 ڈھائی لاکھ رائفلیں خرید کر دیں جبکہ اٹلی سے تین ملٹری جہاز بھی خرید کر مصر بھجوائے۔ اسی تناظر میں ہمیں اپنے ایمان کی سلامتی اور حق سچ کے لئے اس عبث بحث کو مزید طول نہیں دیا چاہئے۔
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار