موسمیاتی تبدیلیوں نے پوری دنیا کا موسم بہت حد تک تبدیل کر دیا ہے۔ اس تبدیلی نے زمین کے درجہ حرارت میں مجموعی طور پر بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ یہ درجہ حرارت گلیشیر کو پگھلا رہا ہے جسکی وجہ سے ان کا سارا پانی سمندروں میں آنے کا خدشہ ہے۔ بے وقت کی بارشیں زراعت کو متاثر کر رہی ہیں جبکہ زہریلی گیس فضا میں آکسیجن کی مقدار کو مسلسل کم کر رہی ہے۔ پاکستان میں ہر سال گرمی کے موسم کا دورانیہ بڑھ رہا ہے اور ساتھ ساتھ گرمی کی شدت میں بھی بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گرمی کا یہ سلسلہ آنے والے برسوں میں مزید بڑھ سکتا ہے اور اس کا دورانیہ بھی طویل ہونے کا امکان ہے۔ آئندہ برسوں میں پاکستان سمیت دیگر ایشیائی ممالک میں سردی اور موسم بہار بالکل ہی ختم ہونے کا اندیشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔گلوبل وارمنگ کی وجہ سےانٹارکٹیکا 1990ءسے لیکر اب تک چار ٹریلین میٹرک ٹن برف کھو چکا ہے۔اگر دنیا موجودہ رفتار سے زمین کا ماحول تباہ کرتی رہی تو قدرت کا برفانی تحفہ انسانیت کیلئے خطرے کا سبب بن سکتا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہیں۔گزشتہ ایک دہائی میں دو بڑے سیلابوں نے پاکستانی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔ترقی کے اس دور میں فیکٹریاں، گاڑیوں کا دھواں اور متعدد الیکٹرانک اشیاء گلوبل وارمنگ اور درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔صنعتی ترقی کے نتیجے میں ہونے والی اس تبدیلی کو روکنا تو اب ممکن نہیں رہا کیونکہ یہ ترقی اب ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات کو کس حد تک کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔ماہرین کے نزدیک درجہ حرارت اور گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کا سب سے آسان طریقہ بڑے پیمانے پر درخت لگانا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں نئے درخت لگانے کے بجائے درخت کاٹنے کا رجحان زیادہ ہے۔ جنگل اگانےکے بجائے جنگل اجاڑنے کی روش میںروز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔کسی بھی سرکاری پروجیکٹ میں ٹھیکیدار کا سب سے پہلا نشانہ درخت ہوتے ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے زمانےمیں ہی درختوں سے دشمنی کرنے کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔درخت کم ہونے کے متعدد نقصانات ہیں۔ درختوں کی کمی کی وجہ سے زمین پر برسنے والی بارش اپنے ساتھ مٹی بہا کر لے جاتی ہے جسکے نتیجے میں سیلاب آتے ہیں۔درخت ہی سیلاب کم کرنے کا ذریعہ ہیں اور درختوں کی وجہ سے ہی سیلابی پانی کی رفتار کم ہوتی ہے۔ انکی وجہ سے نہ صرف سیلابی پانی کے کٹاؤ سے زمین محفوظ رہتی ہے بلکہ سیلاب کے گزر جانےکے بعد زمین کی سطح پر زرخیزی بڑھ جاتی ہے۔ جنگلات سیلابی پانی کی رفتار کم کرتے ہیں زمین کو کٹاؤ سے بچاتے ہیں زمین کی زرخیزی قائم رکھتے ہیں لہٰذا درختوں سے دشمنی کے بجائے اب ہمیں یہ سلوگن قومی نعرے کے طور پر اپنانے کی ضرورت ہے کہ ’’آؤ درخت لگائیں‘‘۔درخت کرہ ارض کے گرد موجود اوزون کی تہ کیلئے نقصان دہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں اور تازہ آکسیجن خارج کرتے ہیں۔ عمارات کے آس پاس درخت لگانے سے کمرے ٹھنڈے کرنے کیلئے مصنوعی نظام یعنی ایئر کنڈیشن کے اخراجات بھی کم کیے جا سکتے ہیں۔ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کے رقبے کا 25 فیصد جنگلات پر مشتمل ہونا بے حد ضروری ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان کا صرف چار فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے جو انتہائی کم اور قابل تشویش ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 4.2 ہیکٹر رقبہ پر جنگلات ہیں پاکستان میں سب سے زیادہ جنگلات خیبر پختون خوا میں ہیں یہاں اس ملک کے جنگلات کا ایک تہائی حصہ اور قدرتی جنگلات کا 40 فیصد حصہ موجود ہے۔ پنجاب پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے لیکن یہاں پر جنگلات نسبتاً بہت کم ہیں اور یہ کل جنگلات کا صرف چار فیصد بنتا ہے۔ سندھ میں اسکے کل رقبے کا صرف چھ فیصد جنگلات پر مشتمل ہے جس میں 1.4 فیصد ساحلی جنگلات ہیں۔رقبے کے لحاظ سے بلوچستان سب سے بڑا لیکن آبادی کے تناسب سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے یہاں پر جنگلات کا 1.5 فیصد رقبہ پر جنگلات ہیں۔آزاد کشمیر میں اس کے کل رقبے کا 42.4 فیصد جنگلات میں گھرا ہوا ہے گلگت بلتستان میں قدرتی جنگلات کا تناسب 3.58 فیصد ہے۔درخت اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمت ہے جس نے انسانی وجود کو ابتدا سے لے کر اب تک سہارا دیا ہوا ہے۔ لکڑی ہی انسان کا پہلا ایندھن تھا اور آج بھی دنیا کی نصف آبادی کھانا بنانے اور اپنے جسم کو حدت پہنچانےکیلئے لکڑی کا استعمال کرتی ہے۔ عمارت کی تعمیر ہو یا فرنیچر کی تیاری، کھیلوں کا سامان اور گھریلو اشیاء درخت کی لکڑی سے ہی معرض وجود میں آتے ہیں۔ کتابوں کی صورت میں جو علم ہم تک پہنچتا ہے اور ہماری آنے والی نسلوں تک پہنچے گا ان کتابوں کے صفحات بھی اسی نعمت کے مرہون منت ہیں۔سر دست یہی عرض ہے کہ ملک بھر میں ’’محفوظ جنگل ‘‘اگانے پر زور دیا جائے۔ایک ایسا جنگل جو انسانوں اور پالتو جانوروں سے محفوظ ہو،سرکاری شجر کاری مہم میں غیر ملکی درخت لگانے کے بجائے مقامی درخت لگائے جائیں۔ہمارے ملک سے کیکر، ٹاہلی، شیشم، بیر اور نیم کے درخت تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔سڑک کے کناروں پر کیکر جیسا خود رو درخت لگایا جائے اور اسکی کاٹ چھانٹ کی جائے۔ایسے مقامی درخت لگائیں جو پھل دار ،پھول دار ،خوشبو دار ہوں جنکے سایے گھنے اور جنکی لکڑی بھی کام آئے۔شجر کاری کی مذہبی اہمیت کیاہے اور کون سے درخت لگانے کی ضرورت ہے اسکا تذکرہ اگلے کالم میں کریں گے انشاء اللہ۔