کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ قدرتی گیس کن ممالک کے پاس ہے ؟ قدرتی گیس کے سب سے زیادہ ذخائر روس، ایران اور قطر کے پاس ہیں ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ تیل کے سب سے بڑے ذخائر کن ممالک کے پاس ہیں؟ سب سے زیادہ تیل و نیزویلا، سعودی عرب اور کینیڈا کے پاس ہے۔ چوتھے نمبر پر ایران اور پانچویں نمبر پر عراق ہے۔ پاکستان کا ہمسایہ ملک ایران گیس اور تیل کی دولت سے مالا مال ہے، دونوں ممالک کے درمیان 900 کلو میٹر لمبا بارڈر ہے ۔ پاکستان طویل عرصے سے گیس اور تیل کی قلت کا شکار ہے ۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود گیس اور تیل کی قلت پاکستانی معیشت کی ترقی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔ اس رکاوٹ کو دور کرنے کیلئے محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1995 ء میں ایران سے سستی گیس خریدنے کے ایک منصوبے پر بات چیت شروع کی اور ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی کے ساتھ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پراجیکٹ شروع کرنے کی ایک مفاہمتی یاداشت پر دستخط کئے ۔ 1996 ء میں انکی حکومت کو برطرف کر دیا گیا اور یہ منصوبہ التوا کا شکار ہو گیا ۔ 2008 ء میں آصف علی زرداری صدر اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے تو اس منصوبے کو فائلوں سے باہر نکالا گیا ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک طرف ایران سے سستی گیس اور تیل خریدنے کا فیصلہ کیا، دوسری طرف امریکا کے ساتھ تعلقات کو بھی بہتر بنانے پر توجہ دی کیونکہ ایران کے ساتھ لین دین کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ امریکی پابندیاں تھیں ۔ کچھ ہی عرصے میں صدر آصف علی زرداری کو احساس ہوا کہ ایران سے گیس خریدنے پرصرف امریکا نہیں بلکہ سعودی عرب کو بھی تحفظات ہیں ۔
پاکستان کسی بھی صورت سعودی عرب کو ناراض نہیں کر سکتا تھا لہٰذا صدر آصف علی زرداری نے چین کی تائید سے ایران اورسعودی عرب میں مفاہمت کیلئےکوششوں کاآغاز کیا،جون 2011ء میں صدر زرداری ایران گئےانہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت الله علی خامنہ ای کیساتھ ایک طویل اورون ٹو ون ملاقات کی ۔ ایک ماہ کے اندر اندر جولائی 2011 ء میں صدر زرداری نے ایران کا ایک اور دورہ کیا اور خامنہ ای کے ساتھ پھر طویل ملاقات کی دوسری طرف چین کی حکومت نے سعودی عرب سے بیک ڈور ڈیلو میسی شروع کی جسکے بعد ایران اور سعودی عرب میں ڈیڈ لاک ختم ہوا تو 2013 ء میں صدر زرداری نے ایرانی صدراحمدی نژاد کے ہمراہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن پراجیکٹ کا افتتاح کر دیا ۔ کچھ عرصے کے بعد نواز شریف وزیرا عظم بن گئے اور زرداری صاحب کی پہلی ٹرم ختم ہو گئی ۔ نواز شریف پربہت دباوآیاکہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پراجیکٹ سے نکل آئیں ۔ انہوں نے اس پراجیکٹ پر خاموشی اختیار کرلی اور قطر سے گیس خریدنی شروع کر دی۔ 2018 ء میں عمران خان وزیر اعظم بن گئے ۔ انہیں بھی مشورہ دیا گیا کہ ایران سے تجارت کا خیال دل سے نکال دیں ۔ انہوں نے بھی یہ منصوبہ ختم کرنے سے انکار کر دیا ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ 2009 ء کے بعد پاکستان کی ہرسیاسی حکومت کو ایران سے گیس خریدنے سے منع کیا گیا لیکن کسی حکومت نے یہ منصوبہ ختم نہیں کیا ۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ جب بھی کوئی پاکستانی حکومت گیس اور تیل مہنگا کرتی ہے تو عوام اُسے بد دعائیں دیتے ہیں ۔ سیاسی حکومتیں محض امریکا کی خوشنودی کیلئے ایسا منصوبہ ختم نہیں کر سکتیں جس سے پاکستان عوام کو فائدہ ہو۔دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور ایران نے جب گیس پائپ لائن پراجیکٹ کا آغاز کیا تواس میں کسی تنازعے کی ثالثی کیلئے فرنچ لاء کے تحت قائم ایک عالمی عدالت کو ثالث بنایا گیا۔ پاکستان اس معاہدے سے نکل جاتا تو اسے کم از کم 18 ارب ڈالر ادا کرنے پڑتے ۔ اس معاہدے پر اتفاق رائے 1995ء میں ہوا ۔ باقاعدہ آغاز 2009ء میں ہوا۔ افتتاح 2013ء میں ہوا اور 2024ء میں اسے ہر صورت مکمل کرنا تھا ۔2022 ء میں شہباز شریف وزیر اعظم بنے تو ملک بدتر ین معاشی بحران کا شکار تھا ۔ ڈیفالٹ کا خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا ۔ پاکستان کبھی چین اور کبھی سعودی عرب سے قرض لیکر ڈیفالٹ سے بچ رہا تھا ۔آئی ایم ایف سے معاہدے کی کوشش کی جا رہی تھی اور اس صورتحال میں امریکا کو ناراض کرنا ممکن نہ تھالہٰذا گیس پائپ لائن پراجیکٹ پر خاموشی اختیار کی گئی ۔ مارچ 2023 میں ایک بڑا بریک تھرو ہو گیا ۔ ایران اور سعودعرب میں مفاہمت کی کو ششیں کامیاب ہو گئیں اور چین نے دونوں ممالک میں صلح کروا دی ۔ کسی کو یاد نہ تھا کہ ایران اور سعودی عرب میں دوستانہ تعلقات کی بحالی کیلئے کوششوں کا آغاز کب اور کس نے کن مقاصد کیلئے کیا تھا۔ بہرحال بیجنگ میں ایران اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کے فوری بعد مئی 2023 ء میں پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ایران سے سستی بجلی خریدنے کے ایک معاہدے پر دستخط کر دئیے۔ خیال تھا کہ اب ایران سے گیس خریدنے کے پراجیکٹ کو بھی مکمل کرلیا جائے گا، لیکن امریکا نے صاف صاف بتا دیا کہ ایران سے گیس خرید نے کا مطلب پاکستان پر اقتصادی پابندیوں کا آغاز ہوگا ۔ پاکستان نے امریکی دھمکیوں کے باعث اس منصوبے کو پھر التواء کا شکار کر دیا لیکن دوسری طرف ایران کی حکومت بے چین ہو رہی تھی ۔ معاہدے کے مطابق ایران اپنے حصے کی پائپ لائن بچھا چکا۔اب باقی کام پاکستان نے کرنا تھا اور اگر مارچ 2024 تک پاکستان اپنے حصے کا کام مکمل نہیں کرتا تو پھر ایران نے پاکستان کو لیگل نوٹس دینا تھا اور اگر ایران لیگل نوٹس نہ دیتا تو ستمبر 2024 ء کے بعد اُسے نوٹس دینے کا اختیار بھی نہ رہتا۔ ایران نے نوٹس دیدیا جسکے بعد امریکی اور بھارتی میڈیا میں دھوم مچ گئی کہ اب پاکستان نے ایران کو 18 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں، نوٹس ملنے کے بعد پاکستان نے فرنچ عدالت میں قانونی کارروائی کا سامنا کرنے کی تیاری شروع کردی لیکن اس دوران ایران پر اسرائیل نے حملہ کردیا۔ خلاف توقع پاکستان اور سعودی عرب نے ایران کی بھرپور سفارتی حمائت کی۔ طویل عرصے کے بعد پاکستان اور ایران کے تعلقات میں گرمجوشی پیدا ہوگئی۔ چند دن قبل آذربائیجان میں ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے وزیراعظم شہباز شریف کو بتایا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ہمیں گیس پائپ لائن پراجیکٹ کے معاملے پر مزید قانونی کارروائی سے روک دیا ہے اور بات چیت کے ذریعہ مسئلہ حل کرنے کی ہدائت کی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے فوری طور پر نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنادی جو یہ معاملہ جلد از جلد طے کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ معاملہ بات چیت سے طے نہیں ہوتا تو معاہدے کے مطابق معاملہ پھر سے فرنچ عدالت میں جائے گا اور اگر وہاں فیصلہ پاکستان کے خلاف آگیا تو 18 ارب ڈالر کا جرمانہ کیسے ادا ہوگا؟ کیا امریکا یہ جرمانہ ادا کرے گا؟ حکومت ہر دوسرے تیسرے مہینے کبھی پٹرول اور کبھی گیس مہنگی کر کے عوام سے گالیاں سنتی ہے۔ کیا ایران سے سستی گیس، سستا پٹرول اور سستی بجلی خرید کر عوام کو ریلیف نہیں دی سکتی؟ جہاں تک امریکا کی پابندیوں کا خطرہ ہے تو پھر فیصلہ کرلیں کہ اپنی خودی کو بلند کرنا ہے یا 18 ارب ڈالر ادا کرنا ہے۔