غزہ سٹی، کراچی (اے ایف پی، نیوز ڈیسک) غزہ پر اسرائیلی طیاروں کی بمباری اور حملوں میں 35فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے ، شہداء میں امداد کے لئے قطاروں میں موجود 10فلسطینی بھی شامل ہیں ۔ اسرائیلی طیاروں کیساتھ ساتھ ڈرونز نے بھی امدادی کیلئے جمع ہجوم ، خیموں اور ھروں کو بمباری کا نشانہ بنایا ۔ حماس کے مسلح ونگ نے جمعے کو اسرائیل پر غزہ میں عارضی جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کیلئے ہونے والے مذاکرات میں معاہدے کو روکنے کا الزام لگایا ہے۔عزالدین القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ حماس نے "ہمیشہ ایک جامع معاہدے کی تجویز پیش کی تھی جو تمام قیدیوں کی ایک ساتھ رہائی کو یقینی بنائے گا"۔لیکن انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے "ہماری تجویز کو مسترد کر دیا ہے"، اور اس پر زور دیا کہ وہ دوبارہ غور کرے۔ انہوں نے مزید کہا، "اگر دشمن مذاکرات کے اس دور میں ہٹ دھرمی پر قائم رہتا ہے تو ہم جزوی ڈیل کی تجاویز - بشمول 10قیدیوں (یرغمالیوں) کے تبادلے کی پیشکش - پر واپسی کی ضمانت نہیں دے سکتے ہیں ۔"غزہ شہر سے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے، فلسطینی این جی اوز نیٹ ورک کے ڈائریکٹر امجد شوا نے کہا کہ غزہ کو امداد کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا، "آج امداد کیلئے کچھ نہیں ہے،سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔" انہوں نے کہا کہ یہ واضح تھا کہ امریکی و اسرائیلی حمایت یافتہ متنازع امدادی تنظیم جی ایچ ایف ، کو جس علاقے میں امداد تقسیم کرنے کا کام سونپا گیا تھا وہ انسانی ہمدردی کے بجائے اسرائیل کے "سیاسی-فوجی ایجنڈے" کی خدمت کر رہا تھا۔ جی ایچ ایف کے ماڈل کا مطلب یہ تھا کہ یہ مایوس فلسطینیوں کو جنوب میں اپنے تقسیم کے مرکز کی طرف دھکیل رہا تھا، جس سے ایک خطرناک سفر کرنا پڑتا تھا اس امید پر کہ وہ چند لوگوں میں سے ہوں گے جنہیں کھانے کا پارسل ملے گا۔ GHF کے تقسیم پوائنٹ کے آس پاس امداد کے متلاشی بار بار قتل ہوئے ہیں۔ شوا نے کہا کہ غزہ کی آبادی کو کھانا کھلانے کے بجائے، GHF ایک "قتل کا طریقہ کار" بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا، "لوگوں کے لیے [وہاں] جانا بہت خطرناک ہو گیا ہے۔"