کشمیر کا مسئلہ قیامِ پاکستان سے پہلے ہی شروع ہوگیا تھا۔ تقسیمِ ہند کے وقت انگریز سرکار نے ملی بھگت سے کشمیر مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باوجود اس کا پاکستان سے الحاق نہ ہونے دیا۔ آزاد کشمیر جو آج ہمارے ساتھ ہے وہ زیادہ تر پونچھ، راولاکوٹ، میر پور اور مظفرآباد کے حریت پسندوں کی ڈوگرا راج سے بغاوت کا ثمر ہے۔ دوسری جنگِ عظیم سے واپس آئے فوجی جوانوں خصوصاً کیپٹن حسین(شہید) اور مسلم کانفرنس کی مقامی قیادت کے سر اس کامیابی کا سہرا جاتاہے۔ کشمیر کی بے پناہ اہمیت کے باعث قائدِ اعظمؒ نے اسے "شہہ رگ "کہا۔ کشمیر پر پاکستان ہندوستان کے درمیان چار جنگیں ہو چکی ہیں کیونکہ اقوامِ متحدہ کی مسئلہ کشمیر پر قراردادوں کے باوجود آجتک کشمیری استصوابِ رائے کے حق سے محروم ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر پچھلے 78 سالوں سے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں جس پر اقوامِ عالم چپ سادے بیٹھے ہیں کہ مسلمان ہونا ہی انکا جرم ٹہرا۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ دو کروڑ سے کم آبادی پر سات لاکھ ہندوستانی فوج اور دیگر سیکیورٹی ادارے جیسے بی ایس ایف، پولیس وغیرہ ملا کر جن کی تعداد 10 لاکھ بنتی ہے کی تعیناتی کا کیا جواز ہے؟مقبوضہ کشمیر میں ہندوتوا کے پیروکاروں، آر ایس ایس کی پرائیویٹ فوج کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ ایسے میں مظلوم کشمیریوں کے پاس لولی لنگڑی مزاحمت کرنےکے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ پاکستان کی جانب دیکھتے ہوئے انہیں 78 سال گزر چکے جبکہ بے بس، لاچار اور مظلوم ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی آنکھیں پاکستان سے مدد کے انتظار میں پتھرا چکی ہیں۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ ماضی میں ہماری سب حکومتیں کشمیر کے حل کے معاملے میں غیر سنجیدہ اور نت نئے تجربات و "آؤٹ آف باکس سولوشن" ڈھونڈنے کے ایجنڈے پر کاربند رہیں۔ حتیٰ کہ موت وحیات کا درجہ رکھنے والی قومی ترجیحات جیسے مسئلہ کشمیر کو ثانوی حیثیت دے کر تحریکِ آزادیٔ کشمیر کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ صدر مشرف نے جنوری 2004 میں اعلانِ اسلام آباد کے ذریعے ہمارے ہاتھ کاٹ ڈالے کہ پاکستان نے مان لیا کہ وہ آزاد کشمیر سے کسی کو مقبوضہ کشمیر میں داخل نہیں ہونے دے گا اور ہندوستان کو لائن آف کنٹرول پر باڑ لگانے کی اجازت بھی دے دی جس سے کشمیر عملاً تقسیم ہو گیا۔ یہ اقدام غیر مشروط سرنڈر اور ہماری قومی پالیسی سے مکمل انحراف تھا کہ ایسی فاش غلطیوں کے مرتکب ہمارے حکمرانوں کے باعث ہی ہندوستان کا حوصلہ بڑھا اور اس نے ہندوستانی آئین کی شق 370 جس کے ذریعے مقبوضہ کشمیر نے اپنے ریاستی قانون کے تحت ہندوستان سے عارضی الحاق کیا تھا متروک کردیا جبکہ 35 اے کے تحت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی جائداد کی غیر کشمیریوں کوخرید وفروخت کی ممانعت تھی بھی ختم کر دی گئی ۔ ان شقوں کو ختم کرنے کے لیے صرف ریاست کی دستور ساز اسمبلی مجاز تھی جو تحلیل ہو گئی اور اب تک دوبارہ قائم نہیں ہوئی ۔ 05 اگست 2019 کو حکمران پارٹی آر ایس ایس کے منشور کے مطابق وزیرِاعظم ہندوستان نے شملہ معاہدے سے صریحا ًانحراف کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کردی اور اسے جبری طور پر ہندوستان کی یونین ٹیریٹری میں شامل کر لیا۔ ادھر پاکستانی حکمرانوں نے انتخابی منشور کا حصہ بنانے اور زبانی جمع خرچ سے بڑھ کر مسئلۂ کشمیر کے حل پر کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہ کی۔ عمران خان کی حکومت نے مزاحمت کے ایسے نئے طریقے وضع کئے جن سے مسئلہ کشمیر اپنے تئیں دفن کر دیا گیا۔اس وقت صدر ٹرمپ تھے جن کی پاکستانی وزیرِاعظم سے لی گئی عدم ردِعمل کی یقین دہانیوں پر "موذی" نے ہندوتوا کا کاری وار کرتے ہوئے مظلوم کشمیریوں کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں قید کر دیا۔ پچھلے 6 سالوں میں ہندوستانی فوج نے کشمیریوں پر جیسے مظالم ڈھائے، خواتین کی بطور جنگی حکمتِ عملی آبروریزی کی،ان کے بنیادی انسانی حقوق پامال کئے ناقابل ِبیان ہے۔ ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی اپنی حکومتوں میں طوالت اور ذاتی مفادات کی خاطر پستی کا سفر آج تک جاری ہے۔
ہر سال 19 جولائی کو یوم الحاقِ پاکستان منا کر ہم کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں اور اس عزم کی تجدید کرتے ہیں کہ خون کے آخری قطرے تک ہندوستانی ناجائز قبضے و تسلط سے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرا کر پاکستان کے ساتھ الحاق کے فیصلے پر عمل درآمد کرائیں گے۔ 19 جولائی 1947 کو کشمیری رہنماؤں اور حقیقی نمائندوں نے سردار محمد ابراہیم خان کی رہائش گاہ پر جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے اجلاس میں جموں کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی۔ اس کے مطابق ریاست جموں کشمیر کی پاکستان سے مذہبی، جغرافیائی،ثقافتی و تہذیبی یگانگت اور ہم آہنگی کے باعث پاکستان سے الحاق کے حق میں فیصلہ دیا گیا۔ اسی لیے قائد ِاعظمؒ کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے لیڈر اور رہنما محترم علی گیلانیؒ واشگاف الفاظ میں کہا کرتے کہ ہم مقبوضہ پاکستان میں ہیں، پاکستان ہمارا ہے اور ہم پاکستان کے! وہ دو قومی نظریے کے داعی اور زمینی حقائق سے بھرپور طریقے سے آشنا تھے۔ آج خود مختار کشمیر کے نعرے لگانے والے حالات سے فائدہ اٹھا کر، مایوسی پھیلا کر، کشمیری قوم کو گمراہ کر کے اصل معاملے سے توجہ ہٹا رہے ہیں۔ خود مختار کشمیر کے نعروں سے کشمیریوں کو تنہا کر نے سے فائدہ صرف ہندوستان کو پہنچے گا کیونکہ سچ یہی ہے کہ تقسیمِ رائے ہندوستان کے حق میں جائے گی۔
ایسے نعرے لگانے والوں کو جواب ہے کہ آزاد کشمیر کو 1947 میں پاکستان نے آزاد حیثیت میں تسلیم کر لیا تھا۔ 28 اپریل 1949 کو حکومتِ پاکستان اور آزاد کشمیر حکومت کے مابین آئینی تعلق کا تعین کیا گیا۔"کراچی معاہدے "کے مطابق دفاع، مواصلات اور کرنسی کی ذمہ داری پاکستان کی تھی پھر یہ کون سی اور کیسی خودمختاری کی باتیں کی جا رہی ہیں؟ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے یکسوئی کی ذمہ داری آزاد کشمیر حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ مقبوضہ کے معاملات پر وہ خود بھی سرگرمِ عمل ہو۔ اپنا جھنڈا، اپنا ترانہ، اپنی پارلیمنٹ، صدر اور وزیرِاعظم، اپنا شناختی کارڈ و اپنی سپریم کورٹ ۔الغرض وہ اپنے مقبوضہ حصے پر ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف دنیا کے مروجہ قوانین کے مطابق مسلحہ جدوجہد کا حق رکھتی ہے۔ چونکہ دفاع کا معاہدہ پاکستان سے ہے لہٰذا وہ پاکستانی حکومت کو اپنی مدد کے لیے بلانے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ اس لیے یہ بہتر ہوگا کہ آزاد کشمیر حکومت اپنی پارلیمنٹ میں باقاعدہ مسلحہ جدوجہد کرنے کا بل منظور کرے اور جہاد کا اعلان کرے۔ تاوقتیکہ آزاد کشمیر حکومت اپنی یہ ذمہ داری پوری نہیں کرتی، معصوم کشمیریوں کے اذہان میں بدگمانی نہ ڈالی جائے کہ پاکستان یا پاکستانی فوج ان کی مدد کو نہیں آرہی۔کشمیریوں کو ادراک ہونا چاہیے کہ پاکستان اپنے تئیں مقبوضہ کشمیر کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا جو بین الاقوامی قوانین کے مطابق نہ ہو۔ البتہ جو کشمیریوں کی پاکستان سے لازوال محبت سے واقف ہیں وہ جھوٹے نعرے لگانے والے ہندوستانی ایجنٹوں سے متاثر نہیں ہوتے۔ وہ جانتے ہیں کہ کشمیری قوم ڈوگرا حکومت سے بغاوت کرکے، ہندوستان سے الحاق کو دھتکار کر، دو قومی نظریے کی روشنی میں الحاقِ پاکستان کا اعادہ کرنے والے سب سے پہلے اور سچے پاکستانی ہیں۔
توڑ اس دست جفا کیش کو یارب جس نے
روحِ آزدایٔ ِ کشمیر کو پامال کیا