اسلام آباد کے جناح ایونیو سے ڈی چوک کی طرف جائیں تو سامنے پارلیمنٹ ہاؤس کی خوبصورت عمارت نظر آتی ہے جسکی پیشانی پر لکھا کلمہ طیبہ آپکی توجہ کھینچ لیتا ہے۔ لا الہٰ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ۔ یہ کلمہ اسلام کی بنیاد ہے جس میں اقرار ہے کہ’’ اللّٰہ تعالیٰ کے سواکوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اسکے رسول ہیں‘‘۔ پارلیمنٹ ہاؤس کی پیشانی پرموجود کلمہ طیبہ مجھے آئین پاکستان کا ابتدائیہ یاد دلاتا ہے جو’’ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم‘‘ سے شروع ہوتا ہے اور جسکی دفعہ 2 کے مطابق اسلام ریاست کا مذہب ہے۔ اسلام اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت اور امن و سلامتی کا نام ہے لیکن میں جب بھی پارلیمنٹ ہاؤس کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتا ہوں تو اسکا سنگ بنیاد مجھے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دھکیل دیتا ہے جوتلخیوں اورتضادات سے بھری ہوئی ہے اور یہ تضادات کم ہونے کی بجائے آج بھی بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ پارلیمنٹ ہائوس کے سنگ بنیاد پر لکھا ہے کہ اس عمارت کا افتتاح 14؍اگست 1974ء کو وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہےکہ پارلیمنٹ ہائوس کا سنگ بنیاد تو ایک منتخب وزیراعظم نے رکھا لیکن 28؍مئی 1986ء کو اس عمارت کا افتتاح ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے کیا۔ وہی جنرل ضیاء الحق جس نے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کیساتھ ملکر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا اور پھر کئی سال کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے پھانسی کے اس فیصلے پر افسوس کا اظہارکیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے آئین پاکستان کے خالق وزیراعظم کو تو پھانسی پر لٹکا دیا لیکن پارلیمنٹ ہائوس کی عمارت کا افتتاح خود کیوں کیا؟ محمد خان جونیجو کو تو انہوں نے خود وزیراعظم بنایا تھا۔انہیں پارلیمنٹ ہائوس کی عمارت کا افتتاح کیوں نہ کرنے دیا؟ یہ درست ہے کہ جونیجو کو جنرل ضیاء نے وزیراعظم بنایا تھا لیکن جونیجو کا اصرار تھا کہ مارشل لا ختم کیا جائے ۔ ایک دن انہوں نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مارشل لا اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ جونیجو کی تقریر کا یہ حصہ پاکستان ٹیلی ویژن نے سنسر کردیا کیونکہ سیکریٹری اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمان فوجی صدر کی مرضی کے مطابق چلتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے 1985کی غیرجماعتی قومی اسمبلی سے وعدہ کیا تھا کہ اگر آٹھویں ترمیم منظور کرکے انہیں قومی اسمبلی توڑنے کا اختیار دیدیا جائے تو وہ مارشل لاہٹانے کا اعلان کردیں گے۔ 17؍اکتوبر 1985ء کی صبح پونے چار بجے آٹھویں ترمیم منظور کرلی گئی لیکن جنرل ضیاء نے مارشل لا ہٹانے کا اعلان نہ کیا جس پر جونیجو ناراض ہوگئے۔ آخر کار 25؍دسمبر 1985ء کو جنرل ضیاء نے مارشل لا ہٹانے کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے چند ماہ کے بعد 10اپریل 1986ء کو محترمہ بینظیر بھٹو اپنی جلاوطنی ختم کرکے پاکستان واپس آئیں۔ لاہور میں ان کا فقید المثال استقبال ہوا جسکی وجہ سے جنرل ضیاء شدید سیاسی دبائو میں تھے۔ وہ محترمہ بینظیر بھٹو کو گرفتارکرنا چاہتے تھے لیکن وزیراعظم جونیجو گرفتاری کیخلاف تھے۔ یہی وہ اختلاف تھا جسکی وجہ سے جنرل ضیاء الحق نے جونیجو کو پارلیمنٹ ہائوس کی عمارت کا افتتاح نہیں کرنے دیا اور 28؍مئی 1986ء کو خود ہی افتتاح کرنے پہنچ گئے تاکہ یہ بتا سکیں کہ مارشل لا تو ختم ہوگیا لیکن پارلیمنٹ ہائوس پر جنرل ضیاء کا قبضہ برقرار ہے۔ عدم تحفظ کےشکار جنرل ضیاء نے کچھ عرصے بعد کرپشن کے الزامات لگا کر محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کردیا۔ جس قومی اسمبلی نے آٹھویں ترمیم کے تحت صدر کو اسمبلی توڑنے کا اختیاردیا جنرل ضیاء نےاسی اسمبلی کو توڑ ڈالا۔ یہ سیاستدانوں کیلئے ایک سبق تھا کہ غیر جمہوری قوتوں کی خوشنودی کیلئے آئین میں ترامیم منظور کرنا دراصل اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوتا ہے لیکن افسوس کہ سیاستدانوں نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا جنرل ضیاء توچلا گیا لیکن اس کے اختیار کو کبھی صدر غلام اسحاق خان اور کبھی صدر فاروق لغاری نے استعمال کیا۔ دونوںنے نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومتوں کو برطرف کیا۔ 1997ء میں تیرہویں ترمیم کے ذریعے نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو نے صدر کا اسمبلی توڑنے کا اختیارختم کیا اور پھر 2010 میں اٹھارہویں تر میم کے ذریعے پارلیمانی نظام حکومت کو بحال کرنے کی کوشش کی گئی۔ پہلے صدر صاحبان اسمبلیاں توڑا کرتے تھے لیکن 2022میں وزیراعظم عمران خان نے تحریک عدم اعتماد سے بچنے کیلئے قومی اسمبلی توڑ دی جسے سپریم کورٹ نے فوری طور پر بحال کردیا۔ 2024 میں 26ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کی ساخت اور کردار بھی بدل چکا ہے۔ قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھ کر جب میں حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے پر الزامات لگاتے اور بعض اوقات گالی گلوچ کرتے دیکھتا ہوں تو میری نظریں قومی اسمبلی کی چھت کی طرف اٹھ جاتی ہیں جس پر اللہ تعالیٰ کے نام آویزاں ہیں۔ اراکین پارلیمنٹ جو حلف اٹھاتے ہیں وہ حلف پارلیمنٹ میں انکے کردار سے مطابقت نہیں رکھتا۔ پارلیمنٹ ہائوس کی پیشانی پرکلمہ طیبہ اور قومی اسمبلی کے ایوان کی چھت پراللہ تعالیٰ کے نام صرف حکومت نہیں بلکہ تمام اراکین پارلیمنٹ پرایک بڑی ذمہ داری عائد کردیتے ہیں ۔ انہیں کلمہ طیبہ کے احترام میں صرف کلمہ حق کہناہے۔انہیں دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرنا اور اپنے ذاتی مفاد کو عوامی مفاد پر قربان کرنا ہے۔ پاکستان کے تمام اہم اداروں میں جو حلف لیا جاتا ہے وہ آئین پاکستان میں لکھا ہوا ہے۔ ہر حلف آئین پاکستان کے مطابق لیا جاتا ہے۔ ایفائے عہد اسلام کی اہم تعلیمات میں سے ایک ہے۔ قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل میں حکم ہے کہ اور عہد کی پابندی کرتے رہو بے شک عہد کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ سورہ المائدہ میں کہا گیا کہ ’’اے ایمان والو! (اپنے) عہدوں کو پورا کرو‘‘۔ اب ذرا اپنےدل پر ہاتھ رکھیں اور سوچیں کہ آپ اور میرے سمیت اس ملک کا حکمران طبقہ ایک دوسرے سے جووعدے کرتا ہے اور حلف اٹھاتا ہے اس پرکتنا عمل کرتا ہے؟ قول و فعل کے تضاد اور عہد شکنی کیوجہ سے وہ آئین پاکستان غیر موثر ہوچکا ہے جس میں اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا گیا۔ وہ پارلیمنٹ بھی بے توقیر ہوچکی ہے جسکی پیشانی پر کلمہ طیبہ آویزاں ہے۔ جمہوریت کا حال وہی ہے جو اسلام آباد کے ڈی چوک میں نظر آتا ہے۔ ڈی چوک کا اصل نام ڈیموکریسی چوک ہے کیونکہ یہاں پر یوم پاکستان کی پریڈ ہوا کرتی تھی۔ پھر ڈیموکریسی کو صرف ڈی تک محدود کردیا گیا اور آج ڈی چوک میں خاردار تاریں اور جنگلے نظر آتے ہیں۔ آئین،پارلیمنٹ اور جمہوریت کو خاردار تاروں سے نجات دلانے کیلئے کلمہ طیبہ کے تقاضوں اور حلف کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔ آئین پاکستان آج کمزور ضرور ہے لیکن اسکا حلیہ بگاڑنےوالوں کاانجام اچھا نہیں ہوا۔ جنرل ضیاء اورجنرل مشرف کا انجام آپکے سامنے ہے۔ وہ آئین جو 14؍اگست 1973ء کو پاکستان میں نافذ ہوا تھا اسے پھر سے بگاڑ دیا گیا ہے۔ یہ آئین واپس ضرو رآئیگا۔ یہ تاریخ کا فیصلہ ہے جو مجھے دیوار پرلکھا نظر آرہا ہے۔