• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر مشتہر ہونے والے ایک واقعہ نے دل دہلا کے رکھ دیا۔ صوبہ بلوچستان میں ایک خاتون اور اسکے شوہر کو اس کے رشتہ داروں نے سب کے سامنے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔اب میڈیا میں مختلف خبریں سامنے آ رہی ہیں جس سے اس قتل کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔بنیادی سوال یہ نہیں ہے کہ انہوں نے خاندانی رسوم و رواج سے بغاوت کی تھی یا اپنی مرضی سے محبت کی شادی کی تھی،ان کا رشتہ جائز تھا یا ناجائز تھا۔ وجوہات کچھ بھی ہوں، دنیا کا کوئی قانون اور مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ لوگ خود اپنی عدالت لگائیں، ایک مرد اور عورت کو اس طرح سب کے سامنے قتل کر دیا جائے۔اسلام میں تو ایک خاتون کو بے پناہ حقوق دیے گئے ہیں اسلام سے پہلے بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا لیکن اسلام نےآکر اس کی حوصلہ شکنی کی۔بچیوں کو زندہ درگور کرنے والے بچیوں کو رحمت سمجھنے لگے،اسلام نے بچیوں کو شادی سے پہلے پسند یا ناپسند کا اختیار دیا۔بچیوں کو قتل کرنے کے سنگدلانہ واقعات کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔اس حوالے سے حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی حضرت صعصہ بن ناجیہ کا تذکرہ کرنا مناسب ہے۔آپ معروف عرب شاعر فرزدق کے دادا تھے اور بنو تمیم کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللّٰہ ہم نے دور جاہلیت میں جو نیکیاں کی ہیں کیا ہمیں ان کا بھی اجر ملے گا؟ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کون سی نیکیاں کی ہیں ، انہوں نے عرض کی، یا رسول اللّٰہ ایک مرتبہ میری دو اونٹنیاں گم ہو گئیں اور میں اپنے تیسرے اونٹ پر سوار ہو کر انہیں تلاش کرنے نکلا،ڈھونڈتے ڈھونڈتے میں ایک جنگل میں پہنچا جہاں میں نے دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی جانوروں کی نگرانی کر رہا ہے میں نے اسے اپنی اونٹنیوں کے بارے میں بتایا اس نے وہ اونٹنیاں تلاش کر کے میرے حوالے کیں۔اسی اثناء میں، میں نے ایک نو مولود بچے کے رونے کی آواز سنی تو بوڑھے نے پوچھا بیٹی ہے یا بیٹا ہے۔ اس کے جواب آنے سے پہلے میں نے پوچھا اگر بیٹی ہوئی تو کیا کرو گے اور بیٹا ہوا تو کیا کرو گے؟اس بوڑھے نے جواب دیا اگر بیٹی ہوئی تو میں اسے دفن کر دوں گا اور اگر بیٹا ہوا تو وہ میرے قبیلے کی شان بڑھائے گا۔یہ سن کر میں نے اسے کہا یہ تینوں اونٹ لے لو اور یہ بچی میرے حوالے کر دو اس نے یہ سودا منظور کیا بچی میرے حوالے کردی۔ میں اسے اپنے گھر لے آیا۔ اس کی پرورش کرنا شروع کردی ۔ مجھے اس عمل میں اتنی راحت محسوس ہوئی کہ اب میں وہ قبیلے ڈھونڈنے لگا جو اپنی بچیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔ پھر میں ان کے پاس جاتا اور اونٹوں کے عوض ان سے بچیاں لے آتا ان کی پرورش کرتا اور پرورش کر کے ان کی شادیاں کر کے انہیں رخصت کر دیتا۔ اس طرح میں نے 360بچیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایا۔ یہ واقعہ سنتے ہوئے حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور آپ کی داڑھی مبارک تر ہو گئی آپ نے ارشاد فرمایا کہ آپ کو اسلام کی دولت ملی ہے وہ ان نیکیوں کا انعام ہے اور آخرت میں بھی اس کا اجر ملے گا۔ہمارے ہاں بیٹیوں کو ناپسند کرنے کی روش دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ ضروری نہیں کہ انہیں گولی سے مار دیا جائے۔ انہیں ہر روز ذہنی جسمانی تشدد کے ذریعے، طلاق کی دھمکیاں دے کر، گھروں سے نکالنے کی باتیں کر کے ان کی زندگی اجیرن بنادی جاتی ہے اور بعض صورتوں میں لڑکیوں کے پیدا ہونے کی صورت میں انہیںکوڑے کے ڈھیر میں پھینک دینا تو معمول کی بات ہے۔ اللّٰہ کے بندو! اللّٰہ کی عطا کردہ نعمتوں سے ایسا سلوک مت کریں۔یہ بیٹیاں اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت ہیں، یہ ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہیں،یہ باپ اور بھائیوں کے فیصلوں کے سامنے اپنی خواہشات دفن کرتی ہیں،یہ ماں کے دکھ درد میں شریک رہتی ہیں، کس طرح ایک انسان اپنی بیٹی کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل کر دیتا ہے،رویوں سے تو روز گھروں میں بچیاں ماری جاتی ہیں لیکن جان سے مار دینا اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے؟بیٹی کا قتل تو گناہ کبیرہ ہے اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جس بچی کو زندہ درگور کر دیا گیا وہ روز قیامت پوچھے گی کہ مجھے کس گناہ کے بدلے قتل کیا گیا؟۔بدقسمتی سے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل و غارتگری کا بازار گرم ہے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق سال 2024ءمیں 392خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔ ان میں سے پنجاب میں 168سندھ میں 1051خیبر پختون خوا میں 52بلوچستان میں 19جبکہ اسلام آباد سے دو کیس رپورٹ ہوئے۔ ملک میں گزشتہ برس کے ریپ کیسز جو رپورٹ ہوئے ان کی تعداد 1969ہے گھریلو تشدد کے کیسز کی تعداد 29، جلا کر مارے جانے والے واقعات 30، اور تیزاب گردی کے ذریعے زندہ جلانے 43کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ دیگر واقعات میں ملک بھر میں 980خواتین کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ان واقعات کی روک تھام کیلئے نہ صرف ریاستی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا بلکہ والدین کو بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔تعلیمی اداروں میں صنفی تشدد کے حوالے سے باقاعدہ مضمون شامل نصاب کرنا ہوگا۔تب جا کر تشدد کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

تازہ ترین