• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’مَیں کہیں بھی رہ لوں گی۔ مُجھے کسی کی ضرورت نہیں۔ خود کماتی، کھاتی ہوں، کسی کی محتاج نہیں ۔ مَیں کسی کی باتیں برداشت نہیں کر سکتی۔‘‘ اپنی افتادِ طبع کی اسیر، شاہانہ جمال غُصّے میں مسلسل بہ آوازِ بلند بولے چلی جا رہی تھیں۔ امّاں کے بَھرے پُرے گھر میں رعب و دبدبے کے ساتھ رہنے کے بعد مختصر ازدواجی زندگی نے اُنہیں تنہا کر دیا تھا۔ 

گرچہ معاشی خود مختاری نے اُنہیں اعتماد بخشا تھا، لیکن ساتھ ہی چڑچڑا اور بد مزاج بھی بنا دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شوہر کے انتقال کے بعد بیٹے اور بہو سے بنی اور نہ بہن بھائی سے۔ پیسا وہ کسی پر خرچ کرنا نہیں چاہتی تھیں اور کسی کی بات برداشت کرنا انہیں روا نہ تھا۔ نتیجتاً، ساٹھ سال کی عُمر میں ٹیچنگ کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد اس مخمصے میں مبتلا تھیں کہ اب وہ کس کے ساتھ رہیں گی۔

٭٭٭٭٭

اکمل صدیقی صاحب کے بچّے بیرونِ مُلک مُقیم تھے۔ رفیقۂ حیات اللہ کو پیاری ہوئیں، تو دل میں بچّوں کے پاس رہنےکی شدید خواہش پیدا ہوئی، لیکن بیٹیاں شوہروں کے ہاتھوں اور بیٹے بیویوں کے ہاتھوں مجبور تھے۔ جب تک ہاتھ پاؤں چل رہے تھے، تو کھانے پینے کا انتظام خود کر رہے تھے، لیکن رات کی سیاہی کاٹے نہیں کٹتی تھی اور اب وہ اپنی باقی ماندہ زندگی کے حوالے سے بھی شش و پنج کا شکار تھے۔

ہمارے معاشرے میں اب ایسی کہانیاں عام ہوتی جا رہی ہیں، جو ایک انتہائی افسوس ناک اَمر ہے۔ مستحکم معاشی حالات کے باوجود عُمر رسیدہ افراد کا ٹھکانہ اولڈ ہاؤسز بن رہے ہیں اور جوانوں کے ہاسٹلز اور دارالامان۔ نیز، اذیّت ناک اکیلا پن اور عبرت ناک اموات انسانوں کا مقدّر بننے لگی ہیں۔ یہ افسوس ناک واقعات نہ صرف دِل دہلا دیتے ہیں، بلکہ پورے معاشرے کو آئینہ بھی دکھاتے ہیں۔ کاش! ہم ان واقعات سے سبق حاصل کریں اور آج ہی سے بہتر کل کی ابتدا کریں۔

واضح رہے کہ تنہائی چاہے خُود اختیاری ہو یا حالات کا جبر، کسی صُورت بھی مناسب راستہ نہیں ہے۔ اکیلا پن انسان کی فطرت و جبلّت کے خلاف ہے۔ ہماری جوانی کے ہنگامے بھی دوست احباب کے ساتھ ہوتے ہیں اور بڑھاپے کی کٹھنائیوں میں بھی اپنے ہی ساتھ دیتے ہیں۔ اسی طرح دُنیا میں آمد کے وقت بھی انسان کے اردگرد اس کے چاہنے والے موجود ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ سفرِ آخرت پر روانہ ہوتے وقت بھی انسان کو اُس کے عزیز کاندھا دیں اور عزّت واکرام سے رُخصت کریں۔

پُرانے وقتوں میں بسترِمرگ پر موجود افراد نصیحت بھی کرتے تھے اور وصیّت بھی۔ اہلِ خانہ اُن کے سرہانے قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے، پانی کے قطرے ٹپکاتے اور آخری سانس آرام سے نکلنے کی دُعائیں مانگتے۔ یاد رہے، حضرت یعقوب علیہ السلام کے وصال کے وقت اُن کے بیٹے اور پوتے پوتیاں اُن کے سرہانے موجود تھے اور حضرت یعقوب علیہ السلام نے اُنہیں دِین پر قائم رہنے کی نصیحت کی، جسے قران نے رہتی دُنیا تک کے لیے مثال اور نمونہ بنا دیا۔

جوانی اپنے ساتھ بہت سی دِل چسپیاں، خواہشات لے کر آتی ہے۔ دُنیا کی رنگینیاں انسان کو اپنی طرف بُلاتی ہیں۔ عزم و ہمّت اور شوق و جستجو کے حامل افراد کے لیے بہت سے دروازے ہیں، جن میں داخل ہونے سے کبھی والدین روکتے ہیں، تو کبھی دینی احکامات۔ اس مرحلے پر سنبھلنے والے سنبھل جاتے ہیں، لیکن عموماً انسانی مزاج یہ پابندیاں قبول نہیں کرتا اور سود و زیاں کا اندازہ نتیجہ نکلنے کے بعد ہوتا ہے، لیکن کبھی کبھار تب تک وقت گزرچُکا ہوتا ہے۔ 

وہ کہتے ہیں ناں کہ جوانی دیوانی ہے، تو اس دَور میں چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں، اُنہیں کسی کی نصیحت اچّھی نہیں لگتی اور اس موقعے پر والدین اور رشتےداروں کی بہت زیادہ پندو نصائح اور تنقید اُنہیں اپنوں سے دُور، تنہائی کے سفر پرلے جاتی ہے، پھر جہاں سے عموماً نفسانی خواہشات کی پیروی اُنہیں تاریک راہوں کی جانب دھکیل دیتی ہے، حسرتیں اور ناکامیاں اُن کا مقدّر بن جاتی ہیں۔ یہاں یہ اَمر قابلِ ذکرہےکہ مَرد ہویا عورت، گھریلو زندگی، رشتےدار، خاندان، مالی معاملات اور سماجی تعلقات، دونوں ہی کےلیے بہت زیادہ سمجھ داری کے متقاضی ہوتے ہیں۔

کسی دَور میں رشتے بہت زیادہ اہمیت رکھتے تھے۔ تب طرزِ زندگی سادہ تھا۔ گھر کے صحن، دِل اور دسترخوان بھی کُشادہ ہوتے تھے۔ اُس وقت مشرق میں تو بھرپور خاندانی نظام تھا ہی، مغرب میں بھی خاندان اہمیت رکھتا تھا۔ سب ایک دوسرے کا سہارا اور غم گُسار تھے۔ خوشی میں ایک ساتھ ہنستے تھے، دُکھ کی گھڑی میں مل کر روتے تھے اور سانس نکلتے وقت بستر کے چاروں اطراف چاہنے والےکھڑے ہوتے تھے، لیکن آج نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ لاش سے تعفّن اُٹھنے ہی پرکسی کی موت کا علم ہوتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب اور کس بےکَسی کےعالم میں کسی نے جان دی۔ رُوح پرواز کرتے وقت اُس نے کِسے پکارا، کس سے معافی مانگی، کسی کو کوئی خبر نہیں ہوتی۔

یہ الم ناک واقعات پورے معاشرے کےلیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ بےنیازی سے سَرجھٹک کرآگے مت بڑھیں، کیوں کہ نہ جانے کس گلی میں، کس پہر اور کن حالات میں آپ کی زندگی کی شام ہو جائے۔ بہتری اِسی میں ہے کہ اجتماعی زندگی کی اہمیت کو سمجھا جائے اور اپنےخاندانی نظام کو مستحکم کیا جائے۔ اسلام نے والدین، اولاد اور عزیز واقارب کے جو حقوق بتائے ہیں، اُنہیں ادا کیا جائے۔ اُن کے لیے مال میں بھی حصّہ ہو اور وقت میں بھی۔ 

اچّھےحالات میں خُودغرضی اور بُرے حالات میں شکایت بالکل مناسب نہیں۔ رویّوں میں نرمی، تعلقات میں برداشت اور عفو ودرگزر دوسروں سے زیادہ خود اپنے لیے بہتر ہے۔ بڑے، بچّوں کاخیال رکھیں اور بچّے، بڑوں کی عزّت اور جہاں تک ممکن ہو، خدمت کریں۔ جہاں تُند مزاجی اور معمولی معمولی باتوں پر ناراض ہونا ٹھیک نہیں، وہیں دوسروں کی عزّتِ نفس مجروح کرنا بھی غلط ہے۔ نئے دَور کا ایک تحفہ، ’’Individuality‘‘ بھی ہے۔ اس طرزِ زندگی کے عادی افراد کی اپنی ذات کے گرد کھنچی دیوار کسی کو قریب نہیں آنے دیتی۔ 

اسی سوچ نے مغرب کو تنہائی کا تحفہ دیا اور اب مشرق بھی اس کا شکار ہے۔ روایتی خاندانی نظام کو بہتر بنا کر اور ایک دوسرے کے حق تلفی کیے بغیر بھی مِل جُل کر رہنے کی صُورت نکالی جاسکتی ہے اور نکالنی چاہیے۔ والدین ہوں یا دیگر رشتےدار، کسی کے بھی اکیلے اور مجبور ہونے پر قریبی عزیز ایسا راستہ نکالیں کہ کوئی فرد کسی ایک پر بوجھ نہ بنے، بلکہ سب اپنا اپنا حصّہ ادا کریں۔ کسی کو اکیلا کسمپرسی میں رہنے دیں اور نہ خود اکیلے رہ کر ان حالات کا شکار ہوں۔

اسلام میں حقوق العباد کی اتنی اہمیت ہے کہ یہ جنّت، دوزخ کا فیصلہ کریں گے۔ نہ صرف قریبی رشتے داروں بلکہ اہلِ محلہ پر بھی فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کی خیرخبر رکھیں، حال چال پوچھیں، بیمار کی عیادت کریں اور وفات پر تعزیت کریں۔ صلۂ رحمی کی اسلام میں خاصی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ کے نبی حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ ’’صلۂ رحمی قیامت کے دن پل صراط پر کھڑی ہوگی اور اقرباء کا حق ادا نہ کرنے والوں کا راستہ روکے گی۔‘‘ 

اس کڑے وقت سے بچنے کے لیے دُعا کے ساتھ رویّے بھی دُرست کریں۔ اپنے اردگرد کے لوگوں کا خیال رکھیں، شکایتوں کی بجائے دوسروں کا حق ادا کریں۔ اگر آپ فراخی میں کُشادہ دِلی کا مظاہرہ کریں گے، تو اللہ تعالیٰ آپ کے لیے آسانی پیدا کرے گا۔ اور آخری بات…اللہ تعالیٰ سے دُنیا کی تنگی سے بھی پناہ مانگیں اور قیامت کی تنگی سے بھی۔