یہ تکلیف دہ کہانی ایک ایسے اوورسیز پاکستانی کی ہے، جس نے خواب صرف اپنے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کیلئے دیکھے۔ اس پاکستانی کا نام جب سنگاپور، لندن، دبئی، نیویارک، جکارتہ یا سڈنی میں لیا جاتا ہے تو لوگ احترام سے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جس نے پاکستان کے ہنر، ذہانت، اور وقار کو عالمی سطح پر روشناس کرایا۔
ڈاکٹر نسیم شہزاد —وہ قابل فخر اوورسیز پاکستانی ہیں، جن کی کمپنی آج دنیا کے 55 ممالک میں موجود ہے۔جس میں سات ہزار سے زائد غیر ملکی ماہرین کام کرتے ہیں۔ وہ ادارہ جو دنیا کی دس بلند ترین عمارتوں میں سے آٹھ کی تعمیر میں شامل رہا۔ امریکہ سے لے کر سنگاپور تک، ریاستی سربراہان ان سے مشورہ لینا اعزاز سمجھتے ہیں۔دنیا نے ان کی قابلیت کو تسلیم کیا، درجنوں ممالک نے انہیں سرکاری ایوارڈز دیے، اور جب ان کی شہرت فلک کوچھو رہی تھی تو حکومتِ پاکستان نے بھی اُن سے رابطہ کیا۔ کہا گیا:ڈاکٹر صاحب، جو کچھ آپ دنیا میں بنا چکے ہیں، اُس جیسا ایک شاہکار پاکستان میں بھی بنائیں۔ ہمارے لوگوں کو بھی عالمی معیار کی رہائش کا تجربہ ہو۔
یہی وہ لمحہ تھا جہاں سے ایک خواب نے جنم لیا—کراچی میں ڈی ایچ اے کے اندر ایک سیون اسٹار رہائشی عمارت کا خواب۔ ڈی ایچ اے نے رسمی دعوت دی، اور ڈاکٹر نسیم شہزاد نے اپنی بین الاقوامی شہرت اور انجینئرنگ ویژن کو وطن کیلئے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ کام کا آغاز ہوا۔ سالوں کی محنت، اربوں روپے کی سرمایہ کاری اور بے مثال ڈیزائن پر مشتمل اس منصوبے کا اسٹرکچر مکمل ہو چکا تھا۔لیکن پھر… سازشوں کی رات اتر آئی۔سابقہ حکومت کے دور میں، خاموشی سے ایک انتقامی طوفان تیار کیا گیا۔ پہلے انکے خلاف افواہیں پھیلائی گئیں، پھر مالیاتی اداروں پر دباؤ ڈالا گیا، اور آخرکار ایف آئی اے کو حرکت میں لایا گیا۔ ایک ایسا مقدمہ بنایا گیا، جو عقل، منطق، اور انصاف تینوں کا مذاق اڑاتا ہے۔ڈاکٹر نسیم شہزاد کی کمپنی کی تعمیراتی منصوبے سے مجموعی آمدنی تقریباً تین ارب روپے تھی لیکن ان پر تیس ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا جھوٹا مقدمہ قائم کر دیا گیا۔یہ الزامات کسی ادارے یا عدالت میں نہیں، بلکہ خود ایک بینک افسر کی خفیہ آڈیو ریکارڈنگ میں جھوٹے تسلیم کیے گئے۔ اس ریکارڈنگ میں بینک افسر بتاتا ہے:ہم جانتے تھے کہ تعمیراتی منصوبے سے تین ارب سے زیادہ کی آمدنی نہیں ہوئی… لیکن ایف آئی اے کے آئی او کا شدید دباؤ تھا۔ اس نے کہا کہ آپ کو لکھنا ہوگا کہ تیس ارب روپے اکاؤنٹ میں آئے ہیں۔یہ لکھا گیا اور حوالہ ہنڈی کا مقدمہ قائم ہوگیا۔یہ ایک جملہ نہیں، پاکستانی ریاست کے منہ پر طمانچہ ہے۔ جب ادارے سچ کے بجائے دباؤ کے تابع ہو جائیں تو پھر مجرم بنانے میں دیر نہیں لگتی۔لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ڈاکٹر نسیم شہزاد نے اپنی زندگی غریبوں، یتیم بچیوں، بیماروں اور بیواؤں کی مدد کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ وہ روزانہ درجنوں خاندانوں کو راشن، اسکول فیس، میڈیکل اخراجات اور چھت فراہم کرتے تھے۔ایف آئی اے نے ان ہی نادار، بے بس خاندانوں کو نوٹس بھیجے۔ انہیں کہا گیا کہ لاہور سے کراچی آ کر ہوٹل میں ٹھہریں، اور آ کر بیان دیں۔ ان پڑھ، بھوکے، یتیم بچوں اور ان کی ماؤں سے کہا گیا کہ بیان دیں کہ ڈاکٹر نسیم شہزاد نے جو پیسے انھیں بھیجے، وہ حوالہ ہنڈی سے بھیجے۔
یہ لوگ جو کل تک ڈاکٹر نسیم کو دعا دیتے تھے، آج خوف، ذلت اور مجبوری کے عالم میں بیان دینے پر مجبور ہیں۔ کیا یہی ہمارا انصاف ہے؟ کیا ہم اپنے محسنوں کو اسی طرح رسوا کرتے ہیں؟ڈی ایچ اے کا وہ منصوبہ، جو اب اپنی تکمیل کے قریب تھا، ان جھوٹے الزامات کے بعد اور اربوں کی سرمایہ کاری کے باوجود ڈی ایچ اے نے خود اپنے قبضے میں لے لیا۔آج ڈاکٹر نسیم شہزاد سنگاپور میں بیٹھے ہیں، آنکھوں میں نمی لیے۔ وہ اب بھی پاکستان کا نام فخر سے لیتے ہیں، لیکن انکے لہجے میں درد ہے، اور سینے میں ایک بھاری دھواں۔ انہوں نے نہ کبھی ریاست کو لوٹا، نہ کسی ٹیکس میں چوری کی، نہ کوئی سیاسی مراعات مانگیں—صرف ملک کی خدمت کی۔
تو پھر سوال یہ ہے:کیا وزیراعظم پاکستان اور وزیرداخلہ محسن نقوی کو خبر ہے کہ ایک ایسا شخص، جس نے پاکستان کے نام کو دنیا میں سربلند کیا، آج اداروں مظالم کے نیچے دب رہا ہے؟ کیا انہیں پتہ ہے کہ ہم اپنے قیمتی ہیروں کو خود پیس رہے ہیں؟ کیا وہ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک بیگناہ انسان انصاف کے دروازے پر سسک رہا ہے، اور ریاست خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے؟
یہ کالم کسی ایک انسان کی وکالت نہیں۔ یہ اُس اوورسیز پاکستانی کی فریاد ہے، جسے ہم خود زخمی کر رہے ہیں۔
وزیراعظم صاحب براہ کرم ، ڈاکٹر نسیم شہزاد کے خلاف بنائے گئے مقدمات کی آزاد، غیرجانبدار، اور شفاف تحقیقات کا حکم دیں۔ ان سے جھوٹے الزامات ہٹائیں، اور انہیں وہ عزت لوٹائیں جسکے وہ حقدار ہیں۔ انہیں یقین دلائیں کہ:’’ڈاکٹر صاحب، یہ وطن پچیس کروڑ پاکستانیوں کی طرح آپ کا بھی ہے… اور ہم آپ پر فخر کرتے ہیں۔‘‘