• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں جب شدید بارش ہوئی تو دفتر سے واپسی پر مجھے فکر لاحق ہوگئی کہ کہیں میری گاڑی کشتی میں نہ تبدیل ہوجائے۔اچانک ذہن میں آیا کہ گاڑی دفترمیں ہی کھڑی کردیتا ہوں اور خود آن لائن ٹیکسی پر چلا جاتاہوں۔ موبائل نکالا اور ٹیکسی کیلئے آرڈر کیا۔ دس منٹ بعد ایک گاڑی قریب آکر رک گئی۔ میں نے موبائل سے گاڑی کا نمبر چیک کیا‘ ڈرائیور کی شکل دیکھی‘ نام پوچھا اور اطمینان سے بیٹھ گیا۔گاڑی نئے ماڈل کی تھی اورکافی آرام دہ تھی۔ ڈرائیور ایک نوجوان لڑکا تھا‘ عمر یہی کوئی ستائیس اٹھائیس سال ہوگی۔گاڑی مین روڈ پر آئی تو میری نظر اچانک اُس کی پینٹ پر پڑی جو جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی...میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں سمجھ گیا کہ حالات سے تنگ یہ نوجوان مجبوراً کسی اور کی ٹیکسی چلانے پر مجبور ہے۔ مجھے یہ بھی سمجھ آگئی کہ رات کو یہ ٹیکسی چلاتا ہوگا اور صبح یونیورسٹی جاتا ہوگا۔ اس کی ایک بیمار ماں اور اپاہج باپ بھی ہوگا‘ سر پر دو بہنوں کی شادی کا بوجھ بھی ہوگا‘ اسی لیے بیچارانئی پینٹ تک نہیں لے سکتا۔ میں نے اپنی شرٹ کی آستین سے آنسو پونچھے اور بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا”بیٹا!ایک بات کہوں‘ برا تو نہیں مناؤ گے؟“۔ اس نے چونک کرمجھے آنسو صاف کرتے ہوئے دیکھا اور جلدی سے بولا”پلیز اب یہ نہ کہئے گا کہ آپ کے پاس کرایہ نہیں“۔ میں سٹپٹا گیا ”نہیں نہیں بیٹا..یہ میں نے کب کہا ہے‘ میں اپنی نہیں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں“۔ وہ چونکا”میری مدد..کیوں؟“ میں نے اسے تسلی دی”بس میرا دل کر رہا ہے۔ایسا کرو جب تم مجھے ڈراپ کرکے جانے لگو تو جینز کی پینٹ لیتے جانا‘ میں نے زیادہ نہیں پہنی‘ چھ ماہ پہلے پانچ ہزار کی لی تھی...“میری بات سنتے ہی اس کا چہرہ لال ہوگیا‘ چلا کر بولا”میں کیوں لوں آپ کی پینٹ؟“۔

میں سمجھ گیا کہ بچہ انا پرست ہے‘ تسلی دی”بیٹا! میں تمہاری خودداری کی قدر کرتا ہوں لیکن تمہیں پینٹ لینا ہی ہوگی‘کسی کی اتنی اچھی گاڑی میں یہ پھٹی ہوئی پینٹ پہن کر بیٹھنا اچھا نہیں لگتا“۔ اس نے زور سے گاڑی کو بریک لگائے اور دانت پیستے ہوئے بولا”یہ میری اپنی گاڑی ہے اور میں شوق سے فارغ وقت میں اسے بطور ٹیکسی چلاتا ہوں اور جس پینٹ کوآپ پھٹی ہوئی کہہ رہے ہو وہ آج کل کا فیشن ہے‘ یہ پھٹی ہوئی پینٹ دس ہزار کی ہے“میں یکدم سہم گیااور گھر کے باہر پہنچتے ہی ”نیواں نیواں“ ہوکے اندر چلا گیا۔

میں فیشن ایبل توہونا چاہتا ہوں لیکن ہونہیں پاتا۔آپ نے کبھی لال رنگ کی پینٹ پر گہرے پیلے رنگ کی شرٹ اور پاؤں میں نیلے بوٹ دیکھے ہیں؟ کہتے ہیں یہ بھی فیشن ہے۔میں نے ایک فیشن ایبل دوست سے پوچھا تھاکہ میرے لیے کوئی ہلکا پھلکا سا فیشن تجویز کرو۔ اس نے غور سے میرا جائزہ لیا اور کہنے لگا”تم بال کھڑے کرلو“۔میرے کان کھڑے ہوگئے۔ اس نے تسلی دی‘ چھوڑ ویہ ڈریس شرٹس اور فارمل ڈریسنگ‘ کچھ مختلف نظر آؤ۔

میں نے خوش ہوکر اس سے درخواست کی کہ وہ خود ہی میرے بال سیٹ کروا دے۔ موصوف مجھے ایک زنانہ نما مردانہ پارلر پر لے گئے۔ واپسی پر میں نے شیشہ دیکھا تو کانپ گیا‘ میرے بال کانٹوں کی طرح کھڑے تھے۔اپنے گھر کی گلی کا موڑ مڑتے ہی ایک محلے دار کی نظر پڑ گئی‘ پہلے تو آنکھیں پھاڑے میرے بال دیکھتا رہا‘ پھر قریب آکر اِدھر اُدھر دیکھ کر آہستہ سے بولا”بھابی سے لڑائی ہوئی ہے؟“

میں ہونٹ سکیڑ کر سیلفی بھی بنانا چاہتا ہوں لیکن مجھ سے موبائل ہی ٹھیک سے نہیں پکڑا جاتا۔میں نے تو جب بھی سیلفی بنانے کی کوشش کی موبائل پر نیا گلاس پروٹیکٹر لگوانا پڑا۔میں جھینگے او ر کیکڑے بھی کھانا چاہتا ہوں تاکہ شکل سے نہ سہی‘ کھانے سے ہی فیشن ایبل نظر آؤں لیکن پتا نہیں کیوں کسی چائنیز ریسٹورنٹ جاتے ہوئے راستے میں کسی چھوٹے سے ہوٹل پر دال ماش اور تنور کی تازہ روٹیاں دیکھتا ہوں تو غش پڑ جاتاہے اور پھر میرے لیے آگے جانا مشکل ہوجاتاہے۔

مردانہ کانوں میں بالی پہننا بھی فیشن ہے‘ بغیر جرابوں کے بوٹ پہننا بھی فیشن ہے‘ شرٹ کا اوپر سے دوسرا بٹن کھلا رکھنا بھی فیشن ہے حالانکہ پہلے یہ لفنگا پن کہلاتا تھا۔ایک فیشن شو میں تو میں نے ایسے ماڈل لڑکوں کو بھی دیکھا جنہوں نے ”غرارے“ پہن رکھے تھے۔غرارے مجھے بھی پسند ہیں لیکن صرف گرم پانی کے۔مجھے لگتا ہے میں کبھی فیشن ایبل نہیں بن سکوں گا‘ یہ دُکھ مجھے کھاتا جارہا ہے۔میں اپنے بازو پر ”ٹیٹو“ بنوانا چاہتا ہوں،ٹی شرٹ اور شارٹ کے نیچے جوگر پہن کر کانوں میں ہینڈز فری لگا کر‘ ہاتھ میں منرل واٹر کی بوتل پکڑ کر شاپنگ کرنا چاہتا ہوں بلکہ یہ سب تو کچھ نہیں‘ میں تو کانٹے سے چائے پینے کا بھی پروگرام بنا رہا ہوں لیکن کامیابی نہیں ہورہی۔جتنا فیشن ایبل ہونے کی کوشش کرتاہوں اُتنا ہی روایتی زندگی میں دھنستا چلا جاتاہوں۔

کئی دفعہ کوشش کی کہ بیکری میں میرا ہاتھ چاکلیٹ کی طرف اٹھ جائے لیکن دوسری طرف کریم رول بھی رکھے ہوتے ہیں ”لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے“‘ کلیجہ دھک سے رہ جاتاہے،پھر میں میں نہیں رہتا تم ہوجاتاہوں۔ سات سو روپے کا برگر کھا لوں توگھر پہنچتے ہی پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہوں۔میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ میں صرف اسی صورت میں فیشن ایبل بن سکتا ہوں اگر میں کسی کی پروانہ کروں۔ یہ طریقہ بھی آزما کر دیکھ چکا ہوں‘ ایک دفعہ اُس نے مجھے فیشن ایبل بنانے کی کوشش کرتے ہوئے تاکید کی کہ کل میرے ہاں کھانے پر صرف جینز اورٹی شرٹ پہن کر آنا۔میں نے ایسا ہی کیا‘ لیکن جب وہاں پہنچا تو پتا چلا کہ لوگ جوتے بھی پہن کر آئے ہوئے تھے۔

تازہ ترین