آج تو بہت کچھ بدل چکا ہے ہماری آنکھوں کے سامنے کیمرے سیلاب کی بے رحمی دکھا رہے ہوتے ہیں اور ایک نیم بے روزگار صحافی اپنی جان پر کھیل کے ایک ایک کرکے سیلاب کی نذر ہوتے افراد کی بے بسی کی تفصیل بیان کر رہا ہوتا ہے مگرمیں جن دنوں کی بات کر رہاہوں وہ زمانہ اور تھا ۔ریڈیو ملتان کے ٹرانسمیٹر کے سگنل اندرون ملک بھی سنے جاتے تھے اور باہر بھی 1973ءمیں پاکستان کا سخت جاں دستور منظور ہو چکا تھا ،میں رحیم یار خان کالج میں پڑھا رہا تھا ریڈیوا سٹیشن ملتان سے میرا کلاس فیلو فخر بلوچ دو تین دن کیلئے میرے پاس آیاکہ اس دستور کی منظوری سے پاکستان کے لوگوں کو جو تحفظ ملا اور ان میں احساس فخر پیدا ہوا اس کے بارے میں رحیم یار خان ، صادق آباد اور خان پور کے لوگوں کے تاثرات ریکارڈ کرنے ہیں ۔سچی بات ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کا انداز بے تعلقی کچھ حوصلہ شکن تھا سو زیادہ تر میں لکھ کے دیتا اور وہ دہرا دیتے ۔خان پور جانے سے پہلے مجھے یہی معلوم تھا کہ وہ جنکشن ہے کئی گاڑیاں ادھر سے مختلف سمتوں کو جاتی ہیں اور وہاں کا کھویا مشہور ہے ۔فخر بلوچ سے وہاں ایک سول جج نے اچھے کھانے کا وعدہ کر رکھا تھا سو ہم وہاں گئے تو وہ جج صاحب دلچسپ شخص نکلے وہ پنجابی گالیوں کا معصومانہ استعمال کرتے تھے ان کے پاس ایک خوش شکل وکیل خاتون بھی تشریف فرما تھیں جتنے ملائم انداز میں وہ ان سے مخاطب ہوتے تھے اس سے گمان ہوتا تھا کہ وہ ان کی اہلیہ ہیں بہر طور خاتون محترم کو لکھا ہوا پڑھنے میں بھی دقت پیش آ رہی تھی گویا انکے نین نقش اور لہجے یا تلفظ میں مطابقت نہیں تھی مگر جج صاحب بار بار کہہ رہے تھے کہ اگر یہ ریکارڈنگ بھٹو یا حفیظ پیرزادہ نے سن لی تو تم نے تو ہائی کورٹ کا جج ہو جانا ہے پھر ہمیں بھلا نہ دینا ۔ پھر فخر بلوچ تب رحیم یار خان دوبارہ آیا اس مرتبہ 1973ءکے سیلاب نے تباہی مچا دی تھی ریل اور سڑک سے ہمارے شہر کا رابطہ کٹ چکا تھا وہ بھٹو کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کے آیا تھا کالج میں چھٹیاں کر دی گئی تھیں کہ طالب علم اور استاد عباسیہ نہر کے پشتوں کو مضبوط بنائیں ۔ بیلچے اور کدال سے ٹوکریوں میں پتھر اور ریت بھر کے جب ہم سروں پر رکھتے تو دیہاتی یعنی محنتی اور ہم جیسے پریم چند اور کرشن چندر کو پڑھ کے ساحر کے گیت گنگنا کے ترقی پسند ہو جانے والوں کا فرق نمایاں ہو جاتا ۔ فخر کی وجہ سے بھٹو اور جنرل ٹکا خان کی گفتگو اور حکمت عملی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا پہلی دفعہ پتا چلا کہ سیلاب میں گھرے ہوئے لوگوں کو اپنے مویشی بیوی بچوں سے زیادہ عزیز ہیں اس لئے خوراک کے پیکٹ کے ساتھ مویشیوں کا چارا بھی پیک کرکے پھینکا جا رہا تھا ۔ فوجی کشتیاں بھی آ جا رہی تھیں مگر ہماری دلچسپی اس بات میں تھی کہ رحیم یار خان کو بچانے کا فیصلہ ہوتاہے یا اس شہرکو بھی قربان کیا جاتا ہے رات گئے علم ہوا کہ فلاں پشتہ اڑا کے رحیم یار خان کو بچا لیا گیا ہے تاہم خان پور شہر ڈوب گیا ہے ۔ پھر بی بی سی نے بتا دیا کہ خان پور شہر میں پانی روشن دانوں میں بھی داخل ہو گیا ہے دو چار دن ہم لوگ شرمندہ شرمندہ پھرے کہ ہماری وجہ سے خان پور ڈوب گیا پھر ریاست بہاول پور کے آب پاشی اور انجینئرنگ کے پرانے لوگوں نے ہمارے ضمیر کا بوجھ ہلکا کیا اور بتایا کہ کچھ سیانوں نے دریا کا مزاج سمجھے بغیر چاہا کہ سیلابی ریلا چولستان میں چلا جائے دریا نے ان کیساتھ مکر کیا کہ چولستان کے ٹیلوں میں کچھ دیر سر دئیے رکھا پھر وہ پلٹ کے آیا اور خان پور کو ڈبو دیا۔
٭٭٭٭
آج جرگوں ، پنچایتوں اور غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کے نام لئے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ بڑے لوگ ہیں ان کا کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا آپ لوک داستانوں کو یاد کریں ہمارے رفعت عباس نے ایک مرتبہ عزم ظاہر کیا کہ وہ اہل دل کی طرف سے صاحباں کے قتل کی ایف آئی آر درج کرائیں گے گویا جو محبت کرے گا قاضی ،ملا اور سردار یا وڈیرہ اس کیلئے کلہاڑی لئے بیٹھا ہے ۔ مظفر گڑھ کے ایک شاگرد نے مجھے بتایا تھا کہ علاقے کے ایک بڑے سیاست دان ( جو شاعر بھی تھے ) کی بیٹی کوئی اجنبی انگلی تھام کے گھر سے چلی گئی تھی ۔ پنجاب کے ایک 'بدنام 'گورنر سے اس بزرگ سیاست دان نے مدد مانگی تو اس نے کسی باوردی ہلاکو یا چنگیز کی مدد سےاس بچی کو گھر پہنچوا دیا جہاں اسی بزرگ نے خاندانی پیالے میں دودھ یا جوس میں زہر کے دو قطرے ڈالے کہ کچھ دیر آرام کر لو صبح دیکھیں گے کیا کرنا ہے اور پھر اس بچی کی زندگی میں صبح نہ آئی ۔
٭٭٭٭
یہاں پانی ، دریا ، کشتی اور ڈوبنے والوں کا اتنا ذکر ہوا کہ جی چاہتا ہے کہ یہاں جناب اسلم انصاری کے سرائیکی ناول بیڑی وچ دریا کے اردو روپ ( الیاس کبیر ) سے دو اقتباس دئیے جائیں۔
الف ۔’’وہ کہہ گئی ہے عورت ذات کیساتھ دھوکہ کرکے اب درویشی تلاش کر رہے ہو ؟ تمہیں درویشی نہیں ملے گی ، یہ کسی اور کو مل گئی تم خالی رہ گئے ‘‘
ب ۔’’ سانول نے دریا میں چھلانگ لگا دی دریا میں اترنے سے پہلے وہ ایسی باتیں کر رہا تھا مجھے لے جائو گے ؟ ارے نائو والے مجھے لے جائو گے ؟ وہیں جہاں ڈھول والے گئے ہیں مجھے لیتے جائو ناں ! اس نے دریا میں چھلانگ لگائی اور پھر باہر نہیں نکلا‘‘(فکشن ہائوس لاہور)