یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہر آواز دبائی جا رہی تھی، ہر اختلاف رائے کو غداری قرار دیا جا رہا تھا، اور ہر اپوزیشن رہنما کو انتقام کی بھٹی میں جھونکا جا رہا تھا۔ عمران خان کا اقتدار اپنے جوبن پر تھا۔ انصاف کا ترازو کانپتا ہوا ایک طرف جھکا کھڑا تھا۔ قانون کتابوں میں دفن ہو چکا تھا اور جمہوریت محض ایک لفظ بن کر رہ گئی تھی۔ملک کے تین بار کے منتخب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو ایسے قید کیا گیا جیسے وہ ملک دشمن ہوں۔ ان کی بیٹی مریم نواز کو، جو نہ کسی سیاسی منصب پر تھیں نہ کوئی سرکاری عہدہ رکھتی تھیں، باپ کی سیاست کا انتقام بناتے ہوئے قید و بند کی صعوبتوں سے گزارا گیا۔ شہباز شریف، ایک انتظامی ماہر، جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیے گئے۔ حمزہ شہباز، ایک نوجوان سیاست دان، چھت سے محروم ایک کوٹھڑی میں بند رہے۔ شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، مفتاح اسماعیل، سبھی کو قافلہ وار گرفتار کیا گیا۔ یہاں تک کہ رانا ثناء اللہ پر تو ایسا ہیروئن کا مقدمہ بنا دیا گیا کہ ان کی زندگی کو ہی موت کی دھمکی دی جانے لگی۔یہ کوئی اتفاقی کارروائیاں نہ تھیں، یہ ایک منظم انتقامی پلان کا حصہ تھا، جسےاحتساب کا نام دے کر جواز فراہم کیا جا رہا تھا۔ نیب، ایف آئی اے، پولیس، میڈیا—سب کو ایک رخ پر لگا دیا گیا تھا۔ صحافت کو باندھ کر رکھ دیا گیا، سچ بولنے والے صحافی غائب ہونے لگے یا وطن چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ایسے گھٹن بھرے وقت میں، ایوانِ بالا میں ایک لرزہ خیز تقریر گونجی۔ یہ آواز تھی سینیٹر مشاہد اللہ خان کی۔ وہ لرزتی آواز نہیں تھی، وہ گرجتی ہوئی تنبیہ تھی۔ وہ چیخ نہیں تھی، وہ وقت کی عدالت کا نوشتہ تھا۔مشاہد اللہ خان نے کھڑے ہو کر کہا:’’خان صاحب! وقت ایک سا نہیں رہتا۔ آپ آج اقتدار میں ہیں، ظلم ڈھارہے ہیں، لیکن کل آپ اپوزیشن میں ہوں گے۔ آپ نے جو بیج آج بویا ہے، وہی کل کاٹنا ہوگا۔ اور خدا نہ کرے کہ آپ کو بھی جیلوں میں جانا پڑے، لیکن اگر آپ لوگ جیلوں میں گئے، تو شاید آپ کے آنسو پونچھنے والا بھی کوئی نہ ہو۔ لیکن یاد رکھیے، ہم آپ کے آنسو پونچھیں گے—کیونکہ ہم سیاسی لوگ ہیں، ہم انتقام کو سیاست کا ہتھیار نہیں بناتے۔ ہم ظلم کا بدلہ ظلم سے نہیں لیتے بلکہ اصولوں سے لڑتے ہیں‘‘۔یہ الفاظ اُس وقت شاید طنز سمجھے گئے، مگر آج وہی الفاظ تاریخ بن چکے ہیں۔دو ہزار پچیس کا سال ہے۔ تحریکِ انصاف کے درجنوں رہنما، جو کل تک سڑکوں پر انقلاب کے نعرے لگا رہے تھے،دفاعی اداروں، شہدا کی یادگاروں اور جناح ہاؤس پر حملے کررہے تھے ، آج جیل کی کال کوٹھڑیوں میں بیٹھے اپنی قسمت پر آنسو بہا رہے ہیں۔ جو کل تک اقتدار کے نشے میں مدہوش تھے آج عدالتوں میں رحم کی درخواست دے رہے ہیں۔یہ منظر دیکھ کر دل میں ایک عجیب سا کرب اتر آتا ہے۔ یاد آتے ہیں وہ لمحے جب مریم نواز کو والدہ کی تیمارداری سے روکا گیا تھا۔ جب نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز لندن کے اسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھیں، اور ان کے شوہر اور بیٹی کو جیل میں قید رکھا گیا تھا اور پھر کلثوم نواز شوہر اور بیٹی سے دور انتقال کرگئیں لیکن اہل اقتدار کو رحم نہ آیا۔سب کچھ سیاست کا حصہ نہیں تھا، یہ انتقام کا خالص زہر تھا، جو مخالفین کو پلایا گیا۔اور آج وہی زہر وقت نے لوٹا دیا ہے۔مشاہد اللہ خان کی تقریر وقت کی کتاب میں درج ہو چکی ہے۔ انہوں نے جو پیش گوئی کی تھی، وہ آج کی حقیقت بن چکی ہے۔ انہوں نے جس دن کی نشاندہی کی تھی، وہ سورج آج طلوع ہو چکا ہے۔ عمران خان آج سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ انکے وفادار رفیق ایک ایک کر کے جیلوںمیں ہیں۔اس صورتحال پر خوشی منانا یا تالیاں بجانا بھی غلط ہے۔ مشاہد اللہ خان کا انتباہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے۔ انہوں نے صرف عمران خان کو نہیں، پوری قوم کو تنبیہ کی تھی۔ آج کی طاقت کل کی کمزوری بن سکتی ہے۔ وہ جو کل تخت نشین تھے، آج تخت سے نیچے گر چکے ہیں۔ بحیثیت قوم فیصلہ کرنا ہوگا: کیا ہم سیاست کو ذاتی دشمنی بنائیں گے، یا اختلاف کو جمہوری طرزِ عمل سے برداشت کریں گے؟ کیا ہم ہر دور میں اپنے مخالفین کو جیلوں میں دیکھنا چاہتے ہیں، یا سیاست کو اصولوں کے ساتھ جینے دینا چاہتے ہیں؟