جیسے جیسے پاکستان کا یوم آزادی قریب آ رہا ہے ،موسم بھی بدلنا شروع ہوگیا ہے،تبدیلی کی ہوا ہولے ہولے چل رہی ہے۔البتہ تشدد کی طرف مائل سوشل میڈیا کی زبان اس تبدیلی کو قبول نہیں کررہی ، جیسے پہلے ایک لفظ ’پگھلنا‘ استعمال ہوتا تھا کچھ یوں کہ برف پگھل رہی ہے،گلیشیر پگھل رہا ہے، من چاہی زندگی گزارنے کے راستے میں حائل بے رحم سماج کا پتھر دل پگھل رہا ہے،تب غالب کے شعر بھی عام لوگوں کو سمجھ میں آتے تھے
نہیں نگار کو الفت نہ ہو نگار تو ہے
روانی روش و مستی ادا کہئے
نہیں بہار کو فرصت،نہ ہو بہار تو ہے
طراوت چمن و خوبی ہوا کہئے
انہیں پتا چل جاتا تھا کہ کوئی آپ کو اچھا لگتا ہے تو ضروری نہیں کہ اس چاند کے آپ مالک ہو جائیں اگر کسی وجہ سے وہ آپ کے آنگن میں نہ اترنا چاہے تو آپ اس کےچہرے پر تیزاب پھینکیں،اس کے گھر پر فائرنگ کریں یا اسے قتل ہی کر دیں، سوچیں تو سہی برصغیر کا اردو کا بہت بڑا شاعر کہہ کیا رہا ہے؟ نگار کو بھی حق دیں کہ وہ آپ کی ملکیت میں آنے سے انکار کرے، اسی طرح کوئی ہمارا پسندیدہ آدمی پردیس میں ہے یا نظر بند ہے تو اس کا کیا مطلب ہے کہ وطن میں بہار بھی نہ آئے؟ جو بچے اپنے والدین کو اپنی سائیکل، اسکوٹر، گھر کی منڈیرپر سجانے کے لئے قومی پرچم یا اس کی جھالر لیتے دیکھتے ہیں تو اسے قومی ترانے کے لفظوں کا مطلب نہ پوچھیں، آج کے بچے تو یہ بھی جانتے ہیں کہ لیاری کے کم سن فٹ بالر بچے ڈنمارک میں اپنی عمر کے بچوں کا مقابلہ جیتے تو قومی ترانے کی دھن بجائی گئی اور دنیا بھر کےبچوں اور بڑوں نےیہ دھن سنی اور پہچانی کہ یہ پاکستان کے قومی ترانے کی دھن ہے۔ ٹھیک ہے کہ بھارت گلیوں میں فٹ بال،کرکٹ کھیلنے والے بچوں پر فورا فلم بناتا ہے اور کروڑوں روپے نریندر مودی کے اس خزانے میں جمع کرا دیتا ہے جہاں سے فی الحال پاکستان کے لئے نفرت اگلی جا رہی ہے تاہم میرا تاثر ہے کہ پاکستان کے لوگ بھارت کے مقابلے میں کھلے دل کے ہیں وہاں کے کروڑوں لوگوں کو بھی اپنی غریبی ، ذات پات اور تنگ دلی پر فتح پاتے دیکھنا چاہتے ہیں،آخرکچھ ایسا تو ہوا ہے کہ ایران کے صدر، دو دن کیلئے پاکستان آئے تو انقلاب ایران کے بعد ایران کے نوجوانوں اور بزرگوں کے دلوں کے قریب ہونیوالے علامہ اقبال کے مزار پر حاضری دی۔ گویابہت کچھ بدل رہا ہے اب ہمارا سوشل میڈیابھی’پگھلنے ‘ پر ’پھٹنے‘ کے لفظ کو ترجیح نہ دے جیسے گلیشیر پھٹنے لگے،کلائوڈ برسٹ ہوا یعنی بادل پھٹا اور بارش بے قابو ہو گئی ابھی تو اقبال کا کلام ہمارے سفارت خانوں کی سمجھ میں آنے لگا تواس کی طویل نظم ’’ مشرق کے لوگوں کو کیا کرنا چاہیے‘‘ ترکیہ،افغانستان اور ترکمانستان کے لوگوں کو تو سمجھ میں آتی ہے چین اور روس میں بھی سمجھی جانے لگی ہے ۔وہ پرانی بات ہے کہ ہمارے ریڈیو کو بھی معلوم نہیں تھا کہ کاشغر کے شہر کہاں کہاں ہیں،جب اس شعر کے دوسرے مصرعے پر پابندی لگی تھی۔
اک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کے تا بخاک کاشغر
٭٭٭٭
ایک وقت تھا ہم دیکھتے تھے کہ سیدسبط حسن،احمد ندیم قاسمی،کشور ناہید اور فیض احمد فیض آپس میں اچھے تعلقات نہیں رکھتے تھےمگر منو بھائی سے سبھی پیار کرتے تھےجب بے نظیر بھٹو پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنیں تو میں نے منو بھائی سے کہا کہ اب تو ترقی پسند بڑے لوگوں کو اکٹھا کرلو،منو بھائی نے کہا یاد رکھو جہاں دو ترقی پسند ہوں گے وہاں ان کےتین دھڑے ہوں گے،میں نے کہا دو توسمجھ میں آتے ہیں تیسرا کون سا؟ اس نے کہا ان کا’’ متحدہ محاذ‘‘۔ پھر ایک مرتبہ میں نے جناب عابد حسن منٹو سے کہاکہ آپ یہ کوشش کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا کافی بات چیت ہوئی ،کئی کئی دن اور راتیں گزریں مذاکرات میں کہ ترقی پسند بحث کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں پھر میں نے سوچا کہ میں وکیل ہوں سپریم کورٹ کے سامنے جائوں تو بہت سے جج میری عزت بھی کرتے ہیں،یہ جو بی بی کے منہ بولے بھائی سردار فاروق خان لغاری نے پیپلز پارٹی کا سیکرٹری جنرل ہوتے ہوئے بھٹو کی زرعی اصلاحات کے تحت اپنا کچھ رقبہ کھودیا تھا اسے واپس لینے کے لئےاپیل کی کہ یہ زرعی اصلاحات غیر شرعی ہیں اور سردار لغاری نے وہ زمین واپس لے لی اب میں نے سپریم کورٹ میں اپیل کی ہے کہ شرعی عدالت کا یہ فیصلہ غیر آئینی ہے مجھے یقین ہے کہ میری زندگی میں اس اپیل کی سماعت نہیں ہوگی۔میں بھی ضدی آدمی ہوں میں اپنی زندگی کو طول دوں گا دیکھوں گا کب تک میری اپیل کی سماعت نہیں ہوگی۔عابد حسن منٹو نے اپنی آپ بیتی بھی لکھی ہے،ابھی پچھلے ہفتے ان کی دم ساز اور نظریاتی ساتھی محترمہ تسنیم منٹو کی وفات پر چند دوستوں کے سامنے سپریم کورٹ میں دائر اس اپیل کی بات ہوئی تو ہمارے کامریڈ عرفان شمسی نے کہا کہ سپریم کورٹ عابد حسن منٹو کی یہ اپیل خارج کر چکی ہے ممکن ہے کہ عابد منٹو صاحب کو یہ بات ابھی بتائی نہ گئی ہو۔
٭٭٭٭
راحت سعید اور ڈاکٹر جعفر احمد ہمارے قبیلے کے بڑے لوگ تھے وہ کراچی سے ایک منفرد رسالہ ارتقا نکالتے تھے میں نے راحت سعید اور ڈاکٹر جعفر احمد سے بھی وہی بات کی جو منو بھائی سے کہی تھی ۔ تاہم نتیجہ وہی رہا ہمارے کامریڈ راحت سعید کو ہمارے خالد سعید کی طرح پھیپھڑوں کا کینسر ہم سے جدا کر گیا ڈاکٹر جعفر احمدجامعہ کراچی سے ریٹائر ہو کر ایک اور ادارے سے وابستہ ہو کر لکھنے پڑھنے کا شوق پورا کر رہے ہیں، انہوں نے ارتقا کے حوالے سے کچھ باتیں لکھی ہیں جس سے لگتا ہے کہ محمد علی ٍصدیقی،حسن عابد ،واحد بشیر،راحت سعید اور جعفر احمد کا فکری ادارہ انا کی کشمکش سے کہیں لٹ گیا مجھ میں تو ہمت نہیں کہ میں اس مکتوب کی کچھ سطریں لکھوں ممکن ہےققنس کی راکھ سے پھرسے برگ و بار پیدا ہوں اور ارتقاکا قافلہ کراچی میں نہیں اسلام آباد، لاہور،کوئٹہ،پشاور اور ملتان میں پھر سے رواں ہو۔