• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جارج برنارڈ شانے 94برس کی طویل اور متنازع عمر پائی۔ جارج برنارڈ شااپنے زمانے کا معروف ترین ڈرامہ نگار ہونے کے علاوہ سیاست میں بھی ڈرامائی خیالات کیلئے جانا جاتا تھا۔ آئرش نژاد برنارڈ شا1916ء کی خانہ جنگی میں برطانوی پالیسیوں کا کھلا مخالف تھا ۔ ابتدائی عمر میں سوشلسٹ رجحانات رکھتا تھا پھر آمریت کا حامی ہو گیا۔روسی انقلاب کے بعد لینن کا مداح ہو گیا۔ 1931ء میں سوویت یونین جا کر اسٹالن سے ملا ۔ ہٹلر اور مسولینی کی بھی تعریف کی۔ جارج برنارڈ شا سنجیدہ سیاسی مفکر نہیں سمجھا جاتا لیکن ایک جملہ اس نے کمال کا کہہ رکھا ہے۔ ’اگر تم بیس برس کی عمر میں کمیونسٹ نہیں ہوئے تو تم صاحب دل نہیں ہواور اگر تم تیس برس کی عمر میں سرمایہ داری کے حامی نہیں ہو جاتے تو تم صاحب دماغ نہیں ہو‘۔ بیسویںصدی میں ان گنت مفکر اور فنکار ابتدائی عمر میں اشتراکیت سے متاثر ہوئے لیکن بالآخر کمیونزم کے مخالف ہو گئے۔ حیران کن طور پہ کوئی ایسا معروف نام نہیں ملتا جس کا ذہنی سفر اس ترتیب کے الٹ رہا ہو۔ اسکے کچھ اسباب ہیں لیکن کیوں نہ آپ کو کچھ کہانیاں سنائی جائیں ۔ اگست 1935 ء میں ایک رات دو بجے کے قریب ماسکو کی ایک اجتماعی رہائش گاہ کی گھنٹی تین دفعہ بجائی گئی۔ اتنی رات گئے گھنٹی بجنے کا مطلب یہ تھا کہ خفیہ پولیس NKVD آپ کو گرفتار کرنے آئی ہے۔ اس اپارٹمنٹ میں الیگزینڈر گن شن نام کا ایک پچیس سالہ نوجوان رہتا تھا جو اعلیٰ کمیونسٹ رہنمائوں کی تفریح کیلئے فلم دکھانے پر مامور تھا۔ خوفزدہ گن شن نہ کہیں بھاگ سکتا تھا اور نہ چھپ سکتاتھا۔ NKVD جسے گرفتار کرتی تھی اسکی واپسی کا کوئی امکان نہیں ہوتا تھا۔ نوجوان فلم مکینک خاموشی سے نیچے گلی میں کھڑی جیپ میں آ بیٹھا ۔ اسے یقین تھا کہ اسے Lubianka Square لے جایا جا رہا ہے۔ تاہم اسے حیران کن طور پر کریملن لے جایا گیا جہاں اسٹالن اپنے قریبی ساتھیوں کیساتھ رات گئے فلمیں دیکھا کرتا تھا۔ کریملن پہنچ کر معلوم ہوا کہ پارٹی ختم ہو چکی ہے اور کامریڈ اسٹالن سونے تشریف لے گئے ہیں چنانچہ کسی خوفزدہ خرگوش کی طرح دبکے ہوئے گن شن کو اسکے گھر واپس پہنچا دیا گیا۔ نیم تاریک گلی میں ادھ کھلی کھڑکیوں سے جھانکتے چہرے حیران تھے کہ گن شن زندہ کیسے لوٹ آیا۔ آمریت میں مضحک اور دہشت کی درمیانی لکیر دھندلا جاتی ہے۔ روس کے مشہور شاعر مینڈل سٹام نے اپنے ہم عصر پاسٹرناک کو اسٹالن کی ایک ہجو سنائی۔ پاسٹرناک نے سرگوشی میں کہا کہ ’تم نے مجھے یہ نظم سنائی اور نہ میں نے سنی۔ ‘ لیکن کم عقل مینڈل سٹام کچھ دوستوں کو نظم سنا چکا تھا اور جلد ہی گرفتار کر لیا گیا۔ ایک روز پاسٹرناک کا فون بج اٹھا۔ فون کے دوسرے سرے پر اسٹالن موجود تھا۔ ’کیا تم مینڈل سٹام کے ’دوست‘ ہو‘۔پاسٹرناک عجیب مخمصے میں تھا۔اگر دوست ہونے کا اقرار کرتا تو گویا مصیبت میں پھنس جاتا اور اگر دوستی سے انکار کرتاتو صرف ضمیر کی ملامت ہی درپیش نہیں تھی اسٹالن ان لوگوں کو ناپسند کرتا تھا جو مشکل وقت میں دوستی نبھانے سے ڈرتے ہوں۔ پاسٹرناک نے گول مول جواب دیا۔ ’شاعر کم ہی کسی کے دوست ہوتے ہیں۔ ان میں ان کہی چشمک موجود رہتی ہے‘۔مگر اسٹالن اتنی آسانی سے جان چھوڑنے والا نہیں تھا ۔اس نے پھر پوچھا۔ ’کیا مینڈل سٹام بہت بڑا شاعر ہے‘۔ پاسٹرناک نے کہا کہ اس پر تو آمنے سامنے بیٹھ کر بات کر ینگے ۔ فون اچانک بند ہو گیا لیکن پاسٹرناک کئی مہینے تک خوفزدہ رہا۔ جون 1941 ء میں جرمنی نے روس پر حملہ کر دیا ۔ درجنوں اعلیٰ فوجی افسروں کی طرح میجر جنرل روکوسووسکی بھی اگست 1937 ء سے گرفتار تھا۔ ایک شام اسے جیل سے نکال کے اسٹالن کے سامنے پیش کیا گیا۔ اسٹالن نے سامنے رکھے کاغذوں پر سے سر اٹھائے بغیر پوچھا ’روکوسووسکی کدھر ہوتے ہو ؟ بہت دن سے نظر نہیں آئے‘۔ ’کامریڈ اسٹالن میں گرفتار تھا اور جیل میں تھا‘۔ اسٹالن نے مسکرا کر کہا ۔ ’جیل جانے کیلئے یہ کوئی مناسب وقت نہیں۔ آئو کام شروع کرتے ہیں‘۔ یہ وہی روکوسووسکی ہے جو جرمن فوجوں سے لڑتا ہوا برلن تک پہنچا اور اسے بڑا عہدہ ملا۔ مارچ 1953 ء میں اسٹالن کی موت کے بعد اس کا جانشین خروشچیف 1956 ء سے 1963 ء تک سوویت یونین کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ دسمبر 1962ء میں خروشچیف نے روس کے نامور دانشوروں اور ادیبوں کو ایک دعوت پر بلایا۔ ان میں Andrei Voznesenskyبھی شامل تھا جسکی علامتی اور جدید شاعری خروشچیف کو سخت ناپسند تھی۔ اس نےبلند آواز میں کہا ۔ ’اب اسے دیکھو یہ بھی نیا پاسٹر ناک بن رہا ہے۔ تمہیں شاعر بننے کی اجازت کس نے دی؟‘ Voznesenskyنے کہا ۔ مجھے شعر کہنے کیلئے کسی اجازت کی ضرورت نہیں۔ اس پر خروشچیف نے میز پر زور سے مکا مارا اور کہا ۔ ’تم ملک سے بھاگنے کیلئے پاسپورٹ چاہتے ہو۔ یہی چاہتے ہو ناں۔ دفع ہو جائو اور ان کتوں کے ساتھ جا کر رہو‘۔ شاعر نے بڑے رسان سے کہا۔ میں روسی شاعر ہوں اور میں کہیں نہیں جائوں گا۔ 1963 ء میں بریژنیف نے خروشچیف کو معزول کر دیا۔ خروشچیف چپکے سے اپنے گھر میں بیٹھ کر خودنوشت لکھنے لگا۔ ایک روز کے جی بی کا ایک کارندہ اسے ملنے آیا اور خودنوشت کا مسودہ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ خروشچیف نے پوچھا ۔ کیوں دکھائوں؟۔ ’ہمیں دیکھنا ہے کہ آپ نے قومی مفاد کیخلاف تو کچھ نہیں لکھا‘۔ خروشچیف غصے سے دھاڑا ۔ ’تم مجھے قومی مفاد سمجھائو گے۔ میں آٹھ برس ملک کا سربراہ رہا ہوں‘۔یہ تو صرف سوویت یونین کے کچھ قصے ہیں۔ انقلاب کے خوبصورت لفظ کی تعبیر اس جہنم کی گلیوں میں لے جاتی ہے جن میں نیک خوابوں کی اینٹیں چنی ہوتی ہیں۔ انسانی تاریخ میں انقلاب اور آمریت لازم و ملزوم ہیں۔ حتمی تجزیے میں جمہوری اختلاف رائے کا حق ہی ایک بہتر دنیا کی طرف لے کے جاتا ہے۔

تازہ ترین