• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب فنانس ایکٹ 2025کے ساتھ اچانک سیکشن37اےکی وہ شق نافذ کی گئی، تو کاروباری حلقوں پر جیسے ایک بجلی گر گئی۔ یہ شق ایف بی آر کو غیر معمولی اور بیک وقت خوفناک اختیارات دے رہی تھی —کسی بھی کاروباری ادارے کیخلاف بغیر کسی پیشگی مشاورت یا مؤثر ثبوت کے براہِ راست انویسٹی گیشن، چھاپےاور مالی ریکارڈ کی کھلی چھان بین۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد ملک کے صنعتی علاقوں کی فضا بدل گئی۔ کچھ فیکٹریوں نے پیداوار روک دی، کئی نے رات کی شفٹیں بند کر دیں، برآمدی آرڈرز تاخیر کا شکار ہوئے۔ سرمایہ کاروں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی، کاروباری لوگ سہم گئے کہ نہ جانے کب ان کے دفاتر پر چھاپہ پڑ جائے۔ خوف اس قدر بڑھ گیا کہ کچھ حلقے بیرونِ ملک سرمایہ منتقل کرنے پر غور کرنے لگے۔اس موقع پر ملک بھر کی بزنس کمیونٹی کو فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی شکل میں امید کی کرن نظر آئی، 21 جولائی 2025 کو آرمی چیف، فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر سے بزنس لیڈرز اور ایف پی سی سی آئی کی قیادت کی ایک اہم ملاقات ہوئی۔ اس میٹنگ میں بزنس کمیونٹی نے دل کھول کر اپنی مشکلات، خدشات اور خوف بیان کیے۔ انہوں نے کہا:’’ہم ٹیکس دینے سے نہیں گھبراتے، لیکن بلاوجہ کی تحقیقات، بے جا اختیارات اور عزتِ نفس مجروح کرنے والے اقدامات ہمیں مایوس کر دیتے ہیں۔‘‘جنرل عاصم منیر نے ان کی بات صرف سنی نہیں، بلکہ محسوس بھی کی۔ ایک سپاہی کی آنکھ سے نہیں، ایک قوم کے محافظ کی بصیرت سے انہوں نے دیکھا کہ اگر بزنس کمیونٹی کا اعتماد ٹوٹ گیا تو ملک کی معیشت کس طرح دھڑام سے گر سکتی ہے۔ انہوں نے فوراً فیصلہ کیا کہ اس معاملے کو صرف فائلوں میں نہیں، بلکہ عملی اقدامات سے حل کیا جائے۔جس کے بعد فیلڈ مارشل کی چند دنوں کی روزوشب محنت کے بعد نتیجہ تھا 6 اگست 2025 کا ایف بی آر کا نیا سرکلر، جو دراصل بزنس کمیونٹی کے لیے تحفظ کا اعلان ہے۔ اس سرکلر میں پہلی بار واضح طور پر لکھ دیا گیا کہ اب کوئی بھی انکوائری کمشنر کی اجازت کے بغیر شروع نہیں ہوگی۔انکوائری مکمل ہونے کے بعد بھی، انویسٹی گیشن کا آغاز صرف ممبر ان لینڈ ریونیو آپریشنز کی منظوری سے ہوگا۔اور سب سے اہم، بزنس کمیونٹی کے دو نمائندوں سے مشاورت لازمی ہوگی، جنہیں ان کی اپنی ٹریڈ آرگنائزیشنز نامزد کریں گی۔یہ محض کاغذی تبدیلی نہیں، بلکہ ایک ذہنی سکون کا اعلان ہے۔ اب تاجر، صنعتکار، اور سرمایہ کار جانتے ہیں کہ ان کیخلاف کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے انکے نمائندے ٹیبل پر موجود ہوں گے۔ یہ شفافیت کا نیا باب ہے جس میں یکطرفہ فیصلوں کی گنجائش کم سے کم رہ گئی ہے۔یہ قدم کیوں اتنا بڑا ہے؟ کیونکہ ماضی میں ایسے کیسز سامنے آ چکے ہیں جہاں کاروباری اداروں کو بغیر واضح ثبوت کے تحقیقات میں الجھا کر مہینوں کا نقصان کرایا گیا۔ پروڈکشن رک گئی، برآمدی آرڈرز لیٹ ہو گئے، سرمایہ کار پیچھے ہٹ گئے، اور سب سے بڑھ کر —معیشت کا اعتماد ٹوٹ گیا۔ اگر یہی سلسلہ چلتا رہتا تو آنیوالے دنوں میں پاکستان کی انڈسٹری کو اربوں روپے کا نقصان ہو سکتا تھا، اور ٹیکس نیٹ پھیلنے کے بجائے سکڑ جاتا۔جنرل عاصم منیر کا یہ کردار یہاں منفرد ہو جاتا ہے۔ ایک فوجی سربراہ ہونے کے باوجود انہوں نے یہ سمجھا کہ معیشت کی بقا صرف سرحدوں کے تحفظ میں نہیں بلکہ تاجروں کے اعتماد میں بھی ہے۔ انہوں نے اپنی حیثیت کو استعمال کر کے ایک ایسے نظام کی بنیاد رکھی جس میں بزنس کمیونٹی کو محض ٹیکس دہندہ نہیں بلکہ پارٹنر سمجھا گیا۔آج جب ہم نئے سرکلر کو دیکھتے ہیں تو یہ صرف چند شقوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک سوچ کی علامت ہے —کہ ملک کا تاجر دشمن نہیں، دوست ہے۔ یہ یقین دہانی کہ’’ہم تمہارے ساتھ ہیں، تمہاری عزت ہماری عزت ہے‘‘معیشت میں وہ توانائی پیدا کر سکتی ہے جو محض بجٹ اعلانات سے نہیں آتی۔کراچی کا برآمد کنندہ اب جانتا ہے کہ اسکی فیکٹری پر بلاوجہ چھاپہ نہیں پڑے گا، فیصل آباد کا ٹیکسٹائل مالک یہ اطمینان رکھتا ہے کہ اس کے آرڈرز بیوروکریسی کی پیچیدگیوں میں نہیں پھنسیں گے، لاہور کا ہول سیلرجانتا ہے کہ ایف بی آر کے فیصلے اب زیادہ منصفانہ ہوں گے۔یہ سب کچھ اسلئے ممکن ہوا کہ فیلڈ مارشل سے ملاقات میں بزنس کمیونٹی نے اپنی بات کھل کر رکھی اور فیلڈ مارشل نے اسے سنجیدگی سے لیا۔ اگر یہ نہ ہوتا تو شاید آج بھی کاروباری حلقے غیر یقینی کی دھند میں راستہ تلاش کر رہے ہوتے۔ سرمایہ سمٹتا، روزگار کے مواقع کم ہوتےاور پاکستان کی عالمی تجارتی ساکھ کو دھچکا لگتا۔

تازہ ترین