عمران خان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ جیل میں رہ کر عوام اورپاکستان کیلئے قربانی دے رہے ہیں۔ وہ خود بھی کہتے ہیں کہ ساری عمر جیل میں رہنے کیلئے تیار ہوں۔ اُن کے ووٹر ،سپورٹر بھی کہتے ہیں کہ کپتان ساری زندگی جیل میں گزار دے گا لیکن جھکے گا نہیں۔ اپنے سیاسی مخالفین سے بات چیت کرنا اور اداروں سے لڑائی کو ختم کر کے اپنی اور اپنی سیاسی جماعت کی مشکلات کو کم کرنا ان کے نزدیک ایک کمزوری ہے جو ڈٹے ہوئے خان کو کبھی نہیں دکھانی چاہیے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے اور یہ بات جو میری اطلاعات کے مطابق درست بھی ہے کہ عمران خان دو سال سے اوپر جیل میں رہنے کے باوجود دلیری سے قید کاٹ رہے ہیں۔ اُن کے مخالف جو عمران خان کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ وہ جیل میں چار دن نہیں گزار سکتے وہ غلط ثابت ہوئے۔ گویا عمران خان کے اپنے بھی اور مخالف بھی عمران خان کے بہادری سے جیل کاٹنے پر متفق ہیں۔ یہ وہ اتفاق ہے جس میں عمران خان قربانی دے رہا ہے اور اُس کے ووٹر سپورٹر اسی پر خوش ہیں کہ خان ڈٹا ہوا ہے جبکہ مخالف خان کے ڈٹنے پر اس لیے خوش ہیں کہ نہ اُن کی حکومت کو کوئی خطرہ ہے نہ موجودہ نظام کو اور یہ کہ جب تک خان جیل میں ہے اور جب تک وہ قید رہے گا وہ سکون سے حکومت کرتے رہیں گے۔ عمران خان کو ڈٹا رہنے کا کہنے والے اُن کے لاکھوں حمایتی البتہ خود ڈٹنے کیلئے تیار نہیں۔ وہ خود محض سوشل میڈیا پر ڈٹےہوئے ہیں۔ ڈٹے ہوئے خان کو ایسے ہی ڈٹا رہنے اور اُس کے جیل میں مستقل رہنے کی قربانی کا رستہ ہموار کرنے والے بیرون ملک میں مقیم یوٹیوبر اور تحریک انصاف کے بھگوڑے بھی ڈٹے ہوئے خان کے نام پر خوب ڈالر کما رہے ہیں اور لگاتار آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کر رہے ہیں۔ خود تو بھگوڑے ہیں اور باہر بیٹھ کر یہاں بدامنی کے بیج بو کر پیسہ بنا رہے ہیں لیکن پاکستانی عوام کو طعنے دے رہے ہیں کہ خان کیلئے باہر کیوں نہیں نکلتے۔ بات چیت کے وہ مخالف ہیں، وہ اور پارٹی کا سوشل میڈیا خان کو جوش دلاتا رہتا ہے کہ فوج اور اسکے سربراہ سے لڑتے رہو۔ انہی کے دباؤ، جھوٹ اور فتنہ انگیزی کے نتیجے میں تحریک انصاف لڑائی کے علاوہ کوئی دوسرا رستہ اختیار کرنے میں ناکام ہے اور اگر کوئی بات چیت کی بات کرتا ہے تو اُسے غدار قرار دے دیتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے خان کی جیل لمبی ہوتی جا رہی ہے جبکہ باقی رہنمائوں کو بھی جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے مجبوراً ڈٹنے کیلئے جانا پڑ رہا ہے۔ ڈٹے رہو کپتان چاہے ساری زندگی جیل میں گزارنی پڑے۔ خان کے اس ڈٹنے پر ایک طرف خان کے حمایتی خود سکون سے اپنے گھروں میں بیٹھ کر سوشل میڈیا کے ذریعے انقلاب لا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف اس ڈٹنے نے حکومت کو ایک ایسا سکون دیا ہوا ہے جس میں اپوزیشن نام کی کسی شے کا کوئی خطرہ محسوس ہی نہیں ہو رہا۔ ڈٹا ہوا خان حکومت کے ڈٹے رہنے کی ضمانت بن چکا ہے۔ خان ڈٹا ہوا ہے لیکن اُس کی مقبول ترین جماعت خیبر پختون خوا کے علاوہ کسی دوسری جگہ پانچ سو بندے احتجاج کیلئے نکالنے کے قابل نہیں۔ خان جیل میں رہ کر اور وہاں ساری زندگی گزارنے کیلئے ڈٹا ہوا ہے لیکن اُس کی اپنی جماعت پارلیمنٹ کے اندر بھی کمزور سے کمزور اور بے اثر ہوتی جا رہی ہے۔ خان جیل میں ڈٹا رہنے پر خوش ہے اور وہاں سے ہی اپنی پارٹی کی قیادت کر رہا ہے جبکہ باہر موجودپارٹی قیادت شدید نااتفاقی اور کنفیوژن کا شکار ہے۔ اور اس سے حکومت اور نظام بہت خوش ہیں۔