• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

14 اگست کو پاکستان کا یوم آزادی منانیوالوں کو کچھ باتیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئیں ۔ اگر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح متحدہ ہندوستان کا وزیراعظم بننے کی پیشکش قبول کرلیتے تو پاکستان کبھی نہ بنتا، متحدہ ہندوستان میں سرکار برطانیہ کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کانگریس کے لیڈر مہاتما گاندھی کی تجویز پر قائداعظم کو وزارت ِعظمیٰ پیش کی تھی جو انہوں نے ٹھکرا دی۔ سوچئے! اگر آج کے پاکستان کا کوئی سیاستدان قائداعظم کی جگہ ہوتا تو کیا وہ اس پیشکش کو ٹھکراتا؟ 14 اگست کے دن اہلِ پاکستان کو وہ سازشیں یاد رکھنی چاہئیں جو قائداعظم کیخلاف کی جاتی رہیں تاکہ پاکستان معرض وجود میں نہ آئے۔ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیا لیکن یہ نہیں جانتے کہ اس مطالبے کے بعد کانگریس نے کیسے مختلف مکاتب فکر کے مسلمانوں کو قائداعظم کیخلاف استعمال کرنا شروع کیا اور انہیں پاکستان کے مطالبے سے ہٹانے کیلئے دباؤ ڈالنا شروع کردیا۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ ہمیں پاکستان کے مستقبل پر نظر رکھنی چاہئے اور پرانی باتیں بھول جانی چاہئیں ۔ جی ہاں ! ہمیں پرانی نفرتوں اور اختلافات کو بھول کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے لیکن جب کچھ لوگ تاریخ کو مسخ کرنے سے باز نہ آئیں تو تاریخ کو درست تناظر میں پیش کرنا ضروری ہے۔ جن مسلمانوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی مجھے اُنکی نیت پر شک نہیں لیکن ان میں سے بعض معززین نے مخالفت کا جو انداز اپنایا وہ نامناسب تھا۔ کانگریس کے ایک لیڈر مولانا ابوالکلام آزاد نے کچھ مسلمان رہنماؤں کو قائداعظم کیخلاف ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی کوشش کی۔ 23 مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور کا جواب دینے کیلئے 27 اپریل 1940ء کو دہلی میں آزاد مسلم کانفرنس منعقد کی گئی ۔ اس کانفرنس میں جن جماعتوں کے رہنما موجود تھے اُن میں مجلس احرار، جمعیت علماء ہند، آل انڈیا مومن کا نفرنس، آل انڈیا شیعہ کانفرنس، خدا ئی خدمت گار، جمعیت اہلحدیث اور بنگال کی کرشک پراجا پارٹی شامل تھی۔ 23 مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور بنگال کے وزیراعظم اے کے فضل الحق نے پیش کی تھی لیکن کانگریس نے برطانوی سرکار کیساتھ مل کر انہیں ورغلانے کی سازشیں شروع کردیں ۔ وہ خود تو آزاد مسلم کانفرنس میں نہیں آئے لیکن اُن کی جماعت کر شک پرا جا پارٹی کے نمائندے کرشک کی وہاں موجودگی مولانا ابوالکلام آزاد کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس کانفرنس میں پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا گیا لیکن اس نعرے کو عام مسلمانوں میں کوئی پذیرائی نہ ملی ۔ کچھ عرصے کے بعد برطانوی سرکار نے اے کے فضل تو کو وائسرائے کی ڈیفنس کونسل میں شامل کر لیا جو دوسری جنگ عظیم میں متحدہ ہندوستان کے کردار کا جائزہ لینے اور نگرانی کیلئے قائم کی گئی تھی ۔ قائداعظم نے اے کے فضل کی ڈیفنس کونسل میں شمولیت پر اعتراض کیا کیونکہ وہ مسلم لیگ کے ووٹوں سے وزیراعظم بنے تھے۔ مسلم لیگ کیساتھ اختلافات کے نتیجے میں اے کے فصل حق کو وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دینا پڑ گیا، کانگریس نے بھی ان کیساتھ دھوکہ کیا۔ کانگریس ایک طرف قائداعظم کو کمزور کرنیکی سازشوں میں مصروف تھی اور دوسری طرف سرکار برطانیہ کیساتھ بھی ڈبل گیم کر رہی تھی۔ کانگریس خود کو سیکولر کہتی تھی لیکن حقیقت میں ایک ہندو اکثریتی جماعت تھی۔ قائداعظم کو سمجھ آچکی تھی کہ کانگریس دراصل سیکولرازم کے پردے میں ایک ہندو راج قائم کرنا چاہتی ہے۔ کانگریسی قیادت کا خیال تھا کہ دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کو جاپان کے ہاتھوں شکست ہوجائیگی۔ کانگریس نے برطانیہ کی متوقع شکست کے پیش نظر ہندوستان چھوڑ دو تحریک کا اعلان کردیا۔ یہ دراصل سول نافرمانی کی تحریک تھی۔ کانگریس کی کوشش تھی کہ مسلم لیگ بھی اس میں شامل ہوجائے لیکن قائداعظم سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے تشدد کا راستہ اختیار کرنے کیخلاف تھے۔ انہوں نے 1920ء میں بھی اسی لئے کانگریس چھوڑی تھی کیونکہ گاندھی ستیہ گرہ کے نام پر انارکی پھیلانا چاہتے تھے۔ 1942ء میں بھی انہوں نے گاندھی کی سول نافرمانی تحریک کی حمایت سے انکار کردیا۔ ایک طرف کانگریس مطالبہ پاکستان کی مخالفت کر رہی تھی دوسری طرف سول نافرمانی تحریک کیلئے مسلم لیگ کو استعمال کرنا چاہتی تھی۔ قائد اعظم توڑ پھوڑ کی سیاست سے دور رہ کر مسلم لیگ کو مضبوط بنانا چاہتےتھے کیونکہ انکا خیال تھا کہ گاندھی کی ڈبل گیم زیادہ لمبی نہیں چلے گی۔ کانگریس کے حامی مسلمانوں کو قائد اعظم پر شدید غصہ تھا اور انہوں نے قائداعظم کو برٹش ایجنٹ کہنا شروع کر دیا ۔ مجلس احرار کے رہنما مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی نے تو یہ اعلان کردیا کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد قائداعظم پر غداری کا مقدمہ چلایا جائیگا۔ خاکسار تحریک بھی قائداعظم کیخلاف سرگرم عمل ہو گئی ۔ 26جولائی 1943ء کو ایک نوجوان محمد رفیق صابر نے ممبئی میں قائداعظم کی رہائش گاہ میں گھس کر خنجر سے اُن پر قاتلانہ حملہ کر دیا۔ مزنگ لاہور کے رہنے والے محمد رفیق صابر کا ممبئی میں زیادہ وقت خاکساروں کے دفتر میں گزرا تھا۔ قائداعظم اس حملے میں زخمی ہو گئے تھے اور حملہ آور کو پانچ سال قید کی سزا بھی ملی لیکن اس حملے کی وجہ وہ نفرت تھی جو کانگریسی لیڈروں نے قائداعظم کیخلاف پھیلائی تھی۔ کانگریس کی’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک ناکام ہوگئی۔ اس دوران جاپان پر ایٹم پر بم گرا دیا گیا اور اتحادی فوج دوسری جنگ عظیم جیت گئی۔ کانگریس نے دوبارہ سرکار برطانیہ سے گٹھ جوڑ کر لیا ۔ میں یہاں کانگریسی لیڈر مولانا ابو الکلام آزادکی کتاب INDIA WINS FREEDOM کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ مولانا صاحب نے کتاب کے صفحہ 150 پر یہودیوں کیلئے علیحدہ وطن کی حمایت کردی جبکہ قائداعظم فلسطین میں یہودی ریاست کے شدید مخالف تھے۔ خود فیصلہ کرلیں کہ سرکار برطانیہ کا سہولت کار کون تھا؟ صفحہ 155 پر مولانا صاحب نے سرکار برطانیہ کے ساتھ اپنے غیر معمولی دوستانہ تعلقات کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ فرماتے ہیں 1946 ء میں جواہر لال نہرو نے کشمیر میں جلسے جلوس کی کوشش کی تو گرفتار ہوگئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کانگریس کے صدر تھے۔ اُنہوں نے وائسرائے سے بات کی اور کہا کہ میری نہرو سے فون پر گفتگو کا اہتمام کریں۔ نہرو صاحب ایک ڈاک بنگلے میں نظر بند تھے ۔ مولانا نے نہرو سے فون پر بات کرنے کے بعد وائسرائے لارڈ ویول کو کہا کہ نہرو کشمیر سے واپسی پر راضی ہو گیا ہے آپ اسے ہوائی جہاز کے ذریعے سرینگر سے دہلی لانے کا بندوبست کریں۔ چند گھنٹوں میں نہرو رہا ہوگئے اور وائسرائے کے فراہم کردہ ہوائی جہاز میں بیٹھ کر شاہانہ انداز میں دہلی واپس آ گئے۔ یہ سب کیا تھا؟ مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب انکے اپنے ہی خلاف چارج شیٹ ہے۔ کانگریس کی سول نافرمانی اور جیلوں میں جانا محض سیاسی ڈرامہ بازی تھی۔ 14 اگست کا سبق یہ ہے کہ پُرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعہ آپ بڑے سے بڑا مقصد حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس کیلئےضروری ہے کہ آپ کسی بیرونی طاقت یا غیر سیاسی قوت کا آلہ کار نہ بنیں ۔ صرف اور صرف عوام کی حمایت پر انحصار کریں۔ قائداعظم کے پیچھے کوئی غیر ملکی طاقت تھی نہ کوئی فوج تھی اور نہ ہی کوئی مافیا تھا۔ اُنکے پیچھے صرف اور صرف عوام کی حمایت تھی۔ انہوں نے عوام کی حمایت کو توڑ پھوڑ یا سول نافرمانی کیلئے استعمال کرنیکی بجائے پُرامن سیاسی جدوجہد کی اور پاکستان بنا دیا۔ پرامن سیاسی جدوجہد 14 اگست کا اصل سبق ہے۔

تازہ ترین