اینکرائچ، الاسکا(اے ایف پی، نیوز ڈیسک) امن کیلئے تاریخی موقع ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن الاسکا پہنچ گئے، ٹرمپ نے اپنے روسی ہم منصب کا ریڈ کارپٹ استقبال کیا اور اپنی گاڑی میں ساتھ بٹھا کر لے گئے ، دونوں رہنما ؤں نے یوکرین میں جنگ بندی سے متعلق مذاکرات بھی شروع کردیئے ہیں جن میں دونوں ممالک کے وزراء خارجہ اور ایک ایک مشیر اعلیٰ بھی شامل ہیں، اس سے قبل دونوں رہنماؤں کے درمیان ون آن ون ملاقات طے تھی، ائیر فورس ون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ دونوں طرف سے ایک اچھا احترام ہے اور میرے خیال میں اس سے کچھ اچھا نتیجہ نکلے گا، ٹرمپ نے روسی اور یوکرینی رہنماؤں کے بارے میں کہا، "میں یہاں انہیں میز پر لانے کے لئے ہوں،روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ ماسکو اس ملاقات کے نتائج کی پیشگوئی نہیں کرے گا،کریملن نے کہا کہ دونوں کم از کم چھ یا سات گھنٹے تک بات کریں گے، یوکرینی صدر زیلنسکی نے کہا ہے کہ جنگ کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے، اور ضروری اقدامات روس کو اٹھانے ہوں گے۔ تفصیلات کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمیر پوتن نے جمعہ کو الاسکا میں ایک فضائی اڈے پر ہاتھ ملایا اور مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا، جس سے ایک انتہائی حساس سربراہی اجلاس کا آغاز ہوا جو یوکرین میں خونریز جنگ کو ختم کرنے کے امریکی صدر کے وعدے کی آزمائش کرے گا۔منصوبہ بندی کے تحت، ٹرمپ اور پیوٹن دونوں اپنے اپنے صدارتی جیٹ طیاروں میں پہنچے، دونوں نے ایک دوسرے کی طرف پیدل چل کر ایک دوسرے کا استقبال کیا اور بعد ازاں ریڈ کارپٹ پر چلتے ہوئے گارڈ آف آنر کا معائنہ کیا۔پیوٹن ایک انتہائی غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئےٹر مپ کے پیچھے امریکی صدارتی لیموزین میں داخل ہو گئے۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق پیوٹن کی اپنی گاڑی بھی فضائی اڈے پر موجود تھی تاہم وہ اس کے باوجود ٹرمپ کی گاڑی کی طرف روانہ ہوئے اور ان کیساتھ جا کر بیٹھ گئے۔ روسی صدر کےلئے، یہ سربراہی اجلاس فروری 2022 میں یوکرین پر حملہ کرنے کا حکم دینے کے بعد مغربی سرزمین پر ان کی پہلی آمد ہے، جس نے ایک نہ ختم ہونے والے تنازع کو جنم دیا ہے جس میں دسیوں ہزار لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے ایک نتیجہ خیز ملاقات کی امیدیں ظاہر کی ہیں۔ لیکن جہاں ٹرمپ نے خبردار کیا کہ اگر پیوٹن اپنا موقف تبدیل نہیں کرتے تو وہ چند منٹ بعد ہی اسے ناکامی قرار دے سکتے ہیں، وہیں کریملن نے کہا کہ دونوں کم از کم چھ یا سات گھنٹے تک بات کریں گے۔حالیہ دنوں میں روس نے میدان جنگ میں ایسی پیش رفت کی ہے جو کسی بھی جنگ بندی کی بات چیت میں پیوٹن کا ہاتھ مضبوط کر سکتی ہے، اگرچہ جب پیوٹن پرواز کر رہے تھے تو یوکرین نے اعلان کیا کہ اس نے کچھ گاؤں واپس لے لئے ہیں۔اینکرائج جاتے ہوئے ایئر فورس ون پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، ٹرمپ نے ایک مثبت بات کہی۔ انہوں نے کہا، "دونوں طرف سے ایک اچھا احترام ہے اور میرے خیال میں اس سے کچھ نتیجہ نکلے گا۔"ٹرمپ نے اصرار کیا ہے کہ وہ پیوٹن کے ساتھ مضبوط موقف اپنائیں گے، کیونکہ 2018 میں ہیلسنکی میں ایک سربراہی اجلاس کے دوران ان کے صدراتی دور میں سب سے زیادہ شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب وہ دبے ہوئے دکھائی دیے تھے۔وائٹ ہاؤس نے جمعہ کو اچانک اعلان کیا کہ ٹرمپ نے پیوٹن سےاکیلے ملنے کا منصوبہ منسوخ کر دیا اور اس کے بجائے ان کے ساتھ امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو اور ان کے خصوصی سفیر اسٹیو وِٹکوف ہوں گے، اس کے بعد ایک ورکنگ لنچ ہوگا۔ہر لفظ اور اشارے کو یورپی رہنماؤں اور یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کی جانب سے قریب سے دیکھا جائے گا، جنہیں شامل نہیں کیا گیا اور انہوں نے ٹرمپ کی جانب سے روس کے زیر قبضہ علاقے کو چھوڑنے کے دباؤ کو مسترد کر دیا ہے۔زیلنسکی نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا، "جنگ کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے، اور ضروری اقدامات روس کو اٹھانے ہوں گے۔ ہمیں امریکا پر بھروسہ ہے۔"ٹرمپ نے روسی اور یوکرینی رہنماؤں کے بارے میں کہا، "میں یہاں انہیں میز پر لانے کے لئے ہوں۔"روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ ماسکو اس ملاقات کے نتائج کی پیش گوئی نہیں کرے گا۔لاوروف نے روسی سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ "ہم کبھی بھی وقت سے پہلے کوئی پیش گوئی نہیں کرتے،" جب وہ الاسکا پہنچے، تو انہوں نے ایک ایسی شرٹ پہنی ہوئی تھی جس پر Cyrillic رسم الخط میں "USSR" لکھا ہوا تھا۔روس کا مؤقف ہے یوکرین فوجیں واپس بلائے، نیٹو میں شمولیت ترک کرے اور مغرب ہتھیار دینا بند کرے۔ ٹرمپ فوری جنگ بندی چاہتے ہیں اور پیوٹن سے براہِ راست مذاکرات کو موقع سمجھ رہے ہیں۔یوکرین کا مؤقف ہماری شمولیت کے بغیر کوئی امن معاہدہ ممکن نہیں، پہلے غیر مشروط جنگ بندی ہو۔ یہ اہم ملاقات چار سال میں کسی موجودہ امریکی اور روسی صدر کا پہلا سربراہی اجلاس ہے۔روس کا مؤقف ہے کہ یوکرین خیرسون، لوہانسک، زاپوریزیا اور دونیتسک سے فوجیں واپس بلائے، نیٹو میں شمولیت کا ارادہ ترک کرے، فوجی بھرتی روک دے، مغربی ممالک ہتھیار دینا بند کریں، روسی زبان بولنے والوں کے حقوق کی ضمانت دی جائے، نازی ازم کی ’’تمجید‘‘ پر پابندی لگائی جائے اور مغربی پابندیاں ختم کی جائیں۔امریکہ میں ٹرمپ فوری جنگ بندی چاہتے ہیں اور پیوٹن سے براہِ راست مذاکرات کو موقع سمجھ رہے ہیں، مگر وائٹ ہاؤس نے کسی بڑے بریک تھرو کی امید کم ظاہر کی ہے۔یوکرین کا مؤقف ہے کہ اس کی شمولیت کے بغیر کوئی امن معاہدہ ممکن نہیں، پہلے غیر مشروط جنگ بندی ہو، تمام جنگی قیدی رہا کیے جائیں، روس اغوا شدہ یوکرینی بچوں کو واپس کرے، مستقبل کے لیے سیکورٹی ضمانتیں دی جائیں، فوجیوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہ ہو، اور روس پر پابندیاں بتدریج ختم ہوں۔ٹرمپ نے یورپی رہنماؤں اور زیلنسکی سے مشورہ کرنے کا وعدہ کیا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ کوئی بھی حتمی معاہدہ پیوٹن اور یوکرینی صدر کے ساتھ ایک سہ فریقی ملاقات میں "علاقے کو تقسیم" کرنے کے لئے ہوگا۔ٹرمپ نے پیوٹن کے ساتھ اپنے تعلقات پر فخر کیا ہے، جنگ کا ذمہ دار سابق صدر جو بائیڈن کو ٹھہرایا ہے، اور جنوری میں وائٹ ہاؤس میں واپسی سے پہلے وعدہ کیا تھا کہ وہ 24 گھنٹوں کے اندر امن قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔لیکن پیوٹن کو بار بار کال کرنے، اور 28 فروری کو وائٹ ہاؤس کی ایک ملاقات کے باوجود جس میں ٹرمپ نے عوامی طور پر زیلنسکی کو ڈانٹا تھا، روسی رہنما نے سمجھوتہ کے کوئی آثار نہیں دکھائے ہیں۔ ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ اگر فوری طور پر جنگ بندی نہ ہو سکی تو وہ "خوش نہیں ہوں گے۔"بات چیت ایلمنڈورف ایئر فورس بیس پر ہو رہی تھی، جو الاسکا میں سب سے بڑی امریکی فوجی تنصیب اور سابق سوویت یونین کی نگرانی کے لیے ایک سرد جنگ کی سہولت ہے۔تاریخی اہمیت میں اضافہ کرتے ہوئے، امریکانے 1867 میں روس سے الاسکا خریدا تھا ایک ایسا معاہدہ جس کا حوالہ ماسکو نے زمین کے تبادلے کی قانونی حیثیت کو ظاہر کرنے کے لئے دیا ہے۔