• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کی نیا ڈانواں ڈول چلے یا پھر ’ندیا دھیرے بہو‘ کی بندش پر نیلگوں پانیوں پر غمزہ آرائی کرے، عوام کا حال پون صدی گزری، احمد مشتاق نے بیان کر دیا تھا۔ ’یہ لوگ ٹوٹی ہوئی کشتیوں میں رہتے ہیں‘۔ ان دنوں برسات کے دن ہیں۔ ہم اتر پردیش کے شاعر مصور سبزواری تو ہیں نہیں کہ ’ہمیں یہاں وہ خوش قیاس، خوش گماں پرند تھے/ خیام ریگ میں جو برشگال سوچتے رہے۔‘ ہمیں ان تند و تیز دھاروں سے پرے کسی محفوظ مقام کی سوچنا چاہیے۔ گیارہویں صدی عیسوی کے ایران چلتے ہیں۔ادھر بغداد میں دو دمان بنو عباس اقتدار کی ساڑھے تین صدیاں مکمل کر چکا تھا۔ دولت فاطمیہ شمالی افریقہ میں اپنے قدم جما چکی تھی اور ایران میں سلجوق اقتدار کی نمود تھی۔ ایسے میں گیارہویں صدی عیسوی میں ایران میں دو نابغہ روزگار صاحبان نظر نمودار ہوئے۔ 1018 ء میں نظام الملک طوسی پیدا ہوئے اور 1048 ء میں عمر خیام نے جنم لیا۔ دونوں ایک ہی استاد امام موفق بن احمد المکی کے شاگرد تھے۔

روایت ہے کہ دونوں نوجوانوں میں باہم عہد تھا کہ دونوں میں سے جسے دربار میں منصب ملا وہ دوسرے کی دستگیری کرے گا۔ عمر خیام علم ہیئت ، ریاضی ، فلسفہ اور شعر گوئی میں منتخب روزگار تھا۔ دوسری طرف نظام الملک نے سیاست اور بندوبست حکمرانی میں درک پایا تھا۔ یہاں تک کہ الپ ارسلان کا معتمد وزیر مقرر ہوا ۔الپ ارسلان نے نظام الملک کو اپنے بیٹے ملک شاہ کا اتالیق مقرر کیا کہ وہ عصری علوم کے علاوہ اسے جہاں بانی کے ڈھنگ بھی سکھائے۔ سلجوق عہد کے تمام کارنامے نظام الملک کے تیس سالہ دور وزارت سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ نظام الملک نے ملک بھر میں مدرسوں کا جال بچھانے کے علاوہ متعدد عسکری مہمات بھی سر کیں۔ الپ ارسلان کی موت کے بعد ملک شاہ حکمران ہوا تو نظام الملک وزارت عظمیٰ تک جا پہنچا۔ نظام الملک کی کتاب ’سیاست نامہ‘ سے آج بھی یورپ کی درس گاہوں میں استفادہ کیا جاتا ہے۔ نظام الملک طوسی اپنے عہد جوانی کے دوست عمر خیام کو نہیں بھولا۔ نظام الملک نے عمر خیام کو دربار میں اعلیٰ منصب کی پیشکش کی لیکن عمر خیام نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ اسے کاروبار مملکت میں درک نہیں ہے۔ وہ تو فلکیات ، ریاضی اور شعر کی دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔ اسے سائنسی اور تخلیقی تنہائی کی ضرورت ہے۔ چنانچہ نظام الملک طوسی نے اسے سالانہ دس ہزار طلائی دینار کی تنخواہ کے ساتھ نیشاپور کے نواح میں ایک وسیع و عریض جاگیر بھی عطا کی جہاں وہ علائق دنیا سے دور رسد گاہ میں ستاروں کا مطالعہ کرتا تھا اور رباعیات لکھتا تھا۔ فصل گل و طرف جوئبار و لب کشت (ساحل ہے، سبزہ زار ہے، فصل بہار ہے)۔عمر خیام کی رباعیات میں بہت کچھ ایسا بھی ہے جسے مانی اور بہزاد جیسے کاملین فن نے مصور کر رکھا ہے۔ تاہم اس اجمال ہی کو تفصیل جانئے کہ ادارہ ہذا اس کی اشاعت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

صدیاں گزر گئیں ، عمر خیام اپنے علمی کارناموں اور شعری کمالات کے ساتھ تاریخ سے محو ہو رہا تھا۔ 1809 ء میںپیدا ہونے والے ایک انگریز شاعر Edward Fitzgerald کومشرقی زبانوں کی تحصیل کا شوق چرایا۔ فٹز جیرلڈحافظ ، جامی اور سعدی سے تو واقف تھا لیکن اسے عمر خیام کی خبر نہیں تھی۔ اس کا ایک قریبی دوست Cowellبھی السنہ شرقیہ میں دلچسپی رکھتا تھا۔ 1857ء میں کوول ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم ہو کر کلکتہ پہنچا جہاں اسے ایشیاٹک سوسائٹی کی لائبریری سے عمر خیام کی رباعیات کا ایک مخطوطہ ملا۔

کوول نے اس کی ایک نقل فٹز جیرلڈ کو بھیجتے ہوئے لکھا کہ ’حافظ اور خیام میں ایک ہی ساز کا لحن سنائی دیتا ہے‘۔فٹز جیرلڈ تو خیام کی خوش فکری اور آزاد خیالی پر مر مٹا۔ ایک روز چہل قدمی کرتے ہوئے اس نے بے ساختہ خیام کے ایک مصرعے ’برخیزد بیا بیا ز بہر دل ما‘ (ہمارے دل کی خاطر اٹھو، آؤ آؤ)کا انگریزی ترجمہ کر دیا اور پھر اس شغل میں ایسا گرفتار ہوا کہ 1859 ء میں خیام کی چالیس رباعیات کا ایک کتابچہ لندن کی کاسل سٹریٹ کے ناشر Bernard Quaritchسے شائع کروایا۔ تب انگلینڈ میں لگی بندھی وکٹورین اقدار کا چلن تھا جس میں خیام کی آزاد پرواز کے لیے جگہ نہیں تھی۔ ایک بھی نسخہ فروخت نہیں ہوا۔ پبلشر اس پذیرائی سے ایسا بددل ہوا کہ اس نے رباعیات کے سب نسخے دکان سے باہر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے اور ایک پینی قیمت مقرر کر دی۔ کسی خوش ذوق راہرو نے ایک نسخہ اٹھایا اور ایسا مسحور ہوا کہ اس نسخے کو لے کر Swinburneاور Rossetti جیسے شاعروں کے پاس جا پہنچا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہم عصر انگریزی شعر کی اقلیم میں عمر خیام کا سکہ چلنے لگا۔ 1883ء میں اپنی موت سے پہلے فٹز جیرلڈ جان چکا تھا کہ رباعیات کے ترجمے نے اسے ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید کر دیا ہے۔ عمر خیام کی رباعیات کے نسخے قریب ڈیڑھ سو برس سے عشاق میں اشارہ محبت کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو خیام کے اس شعری کارنامے میں نظام الملک طوسی اور اس کے بخشندہ باغ کا بنیادی کردار ہے۔ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے حصے میں بھی ایک نظام الملک طوسی اور ایک عمر خیام آئے تھے۔ یہ فرق البتہ رہا کہ ہمارا عمر خیام ہمارے سیاست دان سے دس برس پہلے چل بسا ۔ باغ کا نمونہ تو نیشاپور کے کنج گل سے کسی طور گھٹ کے نہیں تھا۔ اشجار اور نہال کی قلم کاری میں کوتاہی ہوئی۔ پھل دار پیڑ تعداد میں کم اور کمزور تھے۔ خاردار اشجار تعداد میں زیادہ اور منہ زور تھے۔ ہمارے باغ کو کبھی ہریالی نصیب نہیں ہوئی۔ کانٹوں کی باڑ پھیلتی چلی گئی ۔ جن پودوں سے پھل پھول کی توقع تھی ان کی آبیاری نہیں ہو سکی۔ یا تو تختہ زمین بنجر تھا یا باغبان سے کچھ کوتاہی ہوئی ہے۔ نظام الملک طوسی کے باغ میں عمر خیام کی کیاریاں آج بھی سرسبز ہیں۔ ہمارے حصے میں آنے والا باغ کانٹوں بھری جھاڑیوں کا ایک قطعہ ہے جہاں گھاس کا کوئی تختہ سلامت ہے اور نہ کسی پھول کی صورت نظر آتی ہے۔

تازہ ترین