پنجاب کے ایک بڑے شہر کے وسط میں واقع میڈیکل اسٹور کے سیلزمین اور گاہک کے درمیان بحث ختم ہونے میں نہیں آرہی تھی۔ گاہک، جس نے ہاتھ میں ایک ڈاکٹر کا تحریر کردہ ادویہ کا نسخہ پکڑا رکھا تھا، کہہ رہا تھا کہ’’ابھی کل پرسوں ہی بلڈپریشر کی ٹیبلیٹس کا ایک پتّا اِتنے پیسوں میں لیا تھا اور آج اُس کی قیمت تین گُنا بڑھ گئی ہے۔ آخر دو روز میں ایسا کیا ہوگیا کہ قیمتیں اِتنی بڑھ گئیں۔‘‘ جواب میں سیلزمین کا کہنا تھا کہ’’ اِس میں میڈیکل اسٹورز کا کیا قصور؟ پیچھے سے جو قیمتیں لگ کر آتی ہیں، ہم تو وہی لیتے ہیں۔
ہاں، یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے منافعے میں سے5 فی صد کم کر دیں۔‘‘ گاہک نے تھک ہار کر ٹیبلیٹس کا آدھا پتّا لیا، کیوں کہ اُس کے پاس اِتنے ہی پیسے تھے اور اُس نے سوچا فی الحال اِن ہی سے کام چلا لیتا ہوں اور دوا لے کر حکّام کو کوستا چلا گیا۔ اُسی میڈیکل اسٹور پر ایک صاحبِ ثروت شخص گلوکوما کے لیے ڈراپس خرید رہا تھا۔
سیلزمین نے جب اُسے1300 روپے ادا کرنے کو کہا، تو اُس نے ناگواری سے کہا’’ابھی پچھلے دنوں تو مَیں نے 700روپے میں خریدے تھے۔‘‘ سیلزمین نے کہا’’جی، یہ پچھلے ہفتے کی بات ہے، اب قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔‘‘ اُس شخص نے رقم تو ادا کردی، لیکن چہرے کے تاثرات سے صاف پتا چل رہا تھا کہ صاحبِ ثروت ہونے کے باوجود قیمت میں یہ اضافہ اُس پر بہت گراں گزرا ہے۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کسی میڈیکل اسٹور پر کبھی کبھار ہی ایسا ہوتا ہے، تو آپ غلطی پر ہیں۔ پنجاب سے خیبر پختون خوا اور سندھ سے بلوچستان تک، ہر طرف موجود لاکھوں میڈیکل اسٹورز اور کلینکس پر روزانہ ایسے لاتعداد واقعات پیش آتے ہیں، جن میں مریضوں کو یہ پریشانی ہوتی ہے کہ’’اِس دوا کی قیمت کل کچھ تھی اور آج کچھ ہے۔‘‘پاکستان میں اشیائے صَرف کی قیمتیں کبھی مستحکم نہیں رہیں۔
بڑھتے مُلکی قرضوں کے ساتھ عوام کی قوّتِ خرید میں مسلسل کمی آتی رہی۔ عالمی بینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق مُلک کی45 فی صد سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، لیکن اشیائے خوردنی کے علاوہ گزشتہ چند سالوں سے جس چیز کی قیمتوں نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں، وہ ادویہ ہیں۔ان کی قیمتوں میں جو ہوش رُبا اضافہ ہوا ہے، اُس نے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ اب شاید کسی کو اپنے مرض سے اِتنی پریشانی نہیں ہوتی، جتنی دوا کی قیمتوں میں آئے روز اضافے سے ہوتی ہے۔
بیمارستان…!!
صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ہر مملکت کی اوّلین ذمّے داری ہے، لیکن دنیا میں صحت اور تعلیم کے لیے سب سے کم، صرف 3فی صد، بجٹ مختص کرنے والی مملکتِ خداداد پاکستان اِس اعتبار سے بدقسمت واقع ہوئی ہے کہ یہاں عوامی علاج معالجہ اور صحت، کبھی حُکم رانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج صحت کی سہولتوں کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان کا شمار190ممالک میں122ویں نمبر پر ہوتا ہے۔
شوگر، بلڈپریشر، امراضِ قلب، سرطان، امراضِ گردہ، امراضِ چشم اور دیگر بیماریوں کے حوالے سے پاکستان سرِفہرست ممالک میں شامل ہے۔ اِس ضمن میں عالمی ادارۂ صحت کے اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں۔ ادارے کے مطابق پاکستان میں ہر روز700 خواتین زچگی کے دَوران مر جاتی ہیں۔ ہر ایک منٹ کے بعد ایک شخص دل کے دورے کا شکار ہوتا ہے۔
روزانہ ایک ہزارسے زائد مریض ذیابطیس اور اس سے وابستہ دیگر بیماریوں سے جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں ذیابطیس ایسوسی ایشن کے مطابق، شوگر کے مریض ہر سال دو اعشاریہ سات بلین ڈالرز ادویہ پر خرچ کر دیتے ہیں۔ یہی حال دوسرے امراض کے لیے خریدی جانے والی ادویہ کا ہے۔ تپتی دھوپ میں کام کرنے والا ایک دہاڑی دار مزدور اور مستری اپنی قمیص کی جیب میں پین کلرز، شوگر اور بلڈپریشر وغیرہ کی ٹیبلیٹس لیے پِھرتا ہے، تو ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھے کسی ادارے کے سی ای او کے بریف کیس میں بھی مختلف امراض کی ادویہ موجود رہتی ہیں۔
خواتینِ خانہ کی بات کریں، تو اُن کے کچن کی الماریوں کے درازوں میں جہاں مرچ، مسالے نظر آتے ہیں، وہیں جوڑوں کے درد، سر درد، بخار، کھانسی، نزلہ زکام کی ادویہ اور طبِ یونانی کی معجونیں دِکھائی دیتی ہیں۔ بچّوں کے کھانسی، بخار کے سیرپ اور وٹامن کی گولیاں اس کے علاوہ ہیں۔ غرض، پاکستانی قوم کو چاروں طرف سے ادویہ کے ایک کوہِ گراں نے گھیرے میں لے رکھا ہے، جس کا ایک ثبوت مُلک کے طول و عرض میں قدم قدم پر24 گھنٹے کُھلے رہنے والے میڈیکل اسٹورز ہیں۔ آج کل پاکستان میں منافعے کے اعتبار سے ادویہ کا بزنس ٹاپ پر جارہا ہے۔
ادویہ کی منڈی
پاکستانی قوم ادویہ پر سالانہ کتنی رقم خرچ کرتی ہے؟ اِس حوالے سے مستند اعداد و شمار دست یاب نہیں۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِس کا کاروباری حجم اربوں نہیں، کھربوں میں ہے۔ 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستانی قوم نے صحتِ عامّہ پر مجموعی طور پر1245 ارب روپے خرچ کیے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اِس رقم میں سے53 فی صد رقم کسی صوبائی اور وفاقی حکومت نے نہیں، بلکہ عوام نے اپنی جیب سے خرچ کی، جو775 ارب سے زاید بنتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستانی قوم جنرل فزیشنز، اسپیشلیٹس کی ہوش رُبا فیسز، میڈیکل ٹیسٹسں اور پرائیویٹ کلینکس میں علاج معالجے پر جتنی رقم خرچ کرتی ہے، اُسے کسی حساب کتاب سے شمار ہی نہیں کیا جاسکتا۔
ادویہ کی بھرمار
پاکستان میں ادویہ کے بے تحاشا استعمال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جنرل پریکٹیشنرز اور اسپشلسٹس، عام طور پر ضرورت سے زیادہ ادویہ تجویز کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہیومن انڈیکس رپورٹ میں پاکستان سے متعلق دل چسپ انکشاف کیا گیا ہے۔’’ AVERAGE NUMBER OF DRUG PRESCRIPTION‘‘ کے زیرِ عنوان رپورٹ کے مطابق’’پاکستان میں ہر مریض کے لیے اوسطاً جو ادویہ تجویز کی جاتی ہیں، اُس کی شرح3 ہے، جو اِس خطّے میں کم آمدنی والے ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔
دیگر ممالک میں یہ شرح اوسطاً تقریباً دو ہے۔ رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے نجی اسپتالوں اور کلینکس میں یہ شرح4 اعشاریہ 5 فی مریض ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ہیلتھ کیئر کا70 فی صد نظام جنرل پریکٹیشنرز اور اسپشلیسٹس کے گرد گھومتا ہے، جن میں سے اکثر غیر ضروری ادویہ تجویز کرتے ہیں اور ان میں زیادہ تعداد اینٹی بائیوٹکس اور انجیکشنز کی ہوتی ہے۔
ان ادویہ کی شرح70 فی صد بتائی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ڈاکٹرز اور اسپشلیسٹس مخصوص برانڈز اور کمپنیز کی ادویہ تجویز کر کے مریضوں سے زیادہ کمپنیز کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور اس کے عوض غیر مُلکی سیّاحت اور قیمتی تحائف وصول کرتے ہیں، جن میں عُمرے کے ٹکٹ بھی شامل ہیں۔ ہم سایہ مُلک بھارت میں برانڈ ناموں کی بجائے جنیرک ڈرگ انڈسٹری قائم ہے، جس کی برانڈ ناموں کی بجائے جنیرک، یعنی کیمیاوی ناموں سے تیار کردہ ادویہ بہت سَستی ہوتی ہیں۔
’’صدمات‘‘ کے سال
پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے ادویہ کی قیمتوں میں خاموشی سے بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اِس دوران کئی ڈرگ پالیسیز اور ڈرگ ایکٹس کے اعلانات بھی ہوئے۔ 2012ء میں ادویہ کی قیمتیں کنٹرول اور اُن کا معیار یقینی بنانے کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان( DRAP) قائم کی گئی۔
اگر کبھی قیمتوں میں تھوڑا بہت اضافہ ہوتا، تو مریض تھوڑا بہت شور مچاتے اور پھر چُپ ہو جاتے، لیکن پھر 2022-23ء اور بالخصوص 24ء میں نگران وزیرِ اعظم، انوارالحق کاکڑ کے دَور میں تو یک لخت اِتنا اضافہ ہوا کہ عوام کی چیخیں نکل گئیں۔ یہ اضافہ بتدریج 200 فی صد سے بھی زیادہ ہوگیا۔
اُس دَور میں جان بچانے والی کئی ادویہ مارکیٹ سے غائب ہوگئیں۔ اگرچہ 2023ء اور 24ء ادویہ کی قیمتوں کے حوالے سے’’صدمات کے سال‘‘ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں، لیکن حکومت اور ادویہ ساز اداروں کی ملی بھگت کا سلسلہ سابقہ حکومتوں میں بھی کسی نہ کسی انداز میں جاری رہا ہے۔ جیسا کہ 2020ء میں عمران خان کے دَور میں نیب نے وفاقی وزیرِ صحت کے خلاف مختلف اداروں کی ملی بھگت سے ادویہ کی قیمتوں میں اضافے پر انکوائری شروع کی۔
تاہم بعدازاں، اُنہیں نیب نے اِن الزامات سے بَری قرار دے دیا، لیکن پی ٹی آئی حکومت کے ایک ذمّے دار اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ’’اگر میرا بس چلے، تو محکمۂ صحت کے500 افسر فارغ کردوں، جو ادویہ کی قیمتوں میں اضافے کے ذمّے دار ہیں۔‘‘ فروری 2023ء میں حکومت کی طرف سے ایک بڑا قدم یہ اُٹھایا گیا کہ فارماسوٹیکل کمپنیز کے دباؤ اور ادویہ کی ممکنہ قلّت روکنے کے لیے جان بچانے والی ادویہ پر14فی صد اور عام ادویہ کی قیمتوں میں 20فی صد اضافے کی منظوری دے دی۔
یکم فروری 2024ء کو بھی ادویہ کی قیمتوں میں اضافے کا ایک بدترین دن قرار دیا جاتا ہے کہ اُس روز نگراں حکومت کی کابینہ نے146جان بچانے والی ادویہ کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی، جب کہ حکومت نے ادویہ ساز کمپنیز کو یہ بھی اختیار دے دیا کہ وہ عام ادویہ کی قیمتوں کا ازخود تعیّن کرسکتی ہیں۔
ڈی ریگولیشن کی اِس پالیسی سے ادویہ کی قیمتوں میں اضافے کا طوفان برپا ہوگیا اور بعض ادویہ ڈھائی سے تین سو فی صد تک منہگی ہوگئیں۔ 4 جولائی 2004ء کی ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق ادویہ کی قیمتیں ماہانہ نہیں، روزانہ کی بنیادوں پر بڑھنے لگیں، جب کہ 2023ء کے مقابلے میں 2024ء میں قیمتیں100 سے 200 فی صد بڑھیں۔
کس دوا کی قیمت کتنی بڑھی، اس کا فرداً فرداً جائزہ لینا تو ممکن نہیں، لیکن بعض عام امراض میں استعمال ہونے والی ادویہ کا نام لیے بغیر اگر قیمتوں میں اضافے کا ذکر کریں، تو مریضوں کی حالتِ زار کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔مثال کے طور پر ذیابطیس کا ایک انجیکشن 366کی بجائے 3000 میں بِک رہا ہے۔
ایک سیرپ495 سے973 روپے کا ہوگیا۔ اِسی طرح ایک اور انجیکشن ڈھائی سو سے بڑھ کر 625 روپے تک پہنچ گیا۔ وٹامنز کی ٹیبلیٹس کا ایک پیکٹ 294 سے 400اور ایک سیرپ281 سے560 میں ملنے لگا۔ ٹی بی کی ٹیبلٹس 1200سے بڑھ کر1762کی ہوگئیں۔ کم و بیش اضافے کا یہی تناسب دیگر سیکڑوں ادویہ میں بھی دیکھنے میں آیا۔
ان ادویہ کی ایک طویل فہرست ہے، جو عام مریضوں کی قوّتِ خرید سے باہر ہوچُکی ہیں۔ مختلف رپورٹس کے مطابق، گزشتہ6 سال میں حکومتوں نے 10 سے زائد بار قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی۔ البتہ، صرف 2022ء میں کابینہ نے ادویہ کی قیمتوں میں10فی صد اضافے کی سمری مسترد کی تھی۔ اکثر حالات میں حکومت نے مریضوں کے مفاد کے برعکس اپنے فیصلوں کا دفاع کیا۔
جیسے گزشتہ نگراں حکومت کے دَور میں وفاقی وزارتِ صحت نے کہا کہ 2018ء سے 2022ء کے دَوران اگر ادویہ کی قیمتوں میں سالانہ اضافہ ہوا ہے، تو یہ کنزیومرز انڈیکس سے مربوط اور 2018 ء کی ڈرگ پرائسنگ پالیسی کے تحت عمل میں آیا ہے۔ اِسی طرح 2024ء میں جو اضافہ کیا گیا، اُسے فارماسوٹیکل کمپنیز کے بُرے مالی حالات سے مربوط کیا گیا کہ بصورتِ دیگر وہ پیداواری عمل روک دیتیں، جس کی وجہ سے جان بچانے والی ادویہ کی قلّت ہوسکتی تھی۔
لیکن حکومت کی یہ پُراسرار پالیسی تنقید کی زَد میں بھی رہی، جیسا کہ ادویہ کی قیمتیں اچانک بڑھنے پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے ایک سابق اعلیٰ افسر نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کو ایک خط میں اُن کی توجّہ اِس مسئلے کی طرف مبذول کرواتے ہوئے لکھا کہ’’ ادویہ کی قیمتوں کو دوا ساز اداروں کی مرضی پر ہرگز ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے کہ یہ عوامی مفاد کے خلاف ہے۔
ڈرگ ایکٹ 2012ء کے مطابق حکومت کو خود، ادویہ کی قیمتیں متعیّن کرنے کا اختیار حاصل ہے۔‘‘ اُنہوں نے یہ بھی لکھا کہ’’ادویہ کی قیمتوں میں آئے روز اضافے سے عوام کے دل میں حکومت کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہورہے ہیں، جب کہ دوسری طرف فارماسوٹیکل کمپنیز نے حکومت کے اِس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔(اور اُنہیں کرنا بھی چاہیے تھا) کیوں کہ اِس فیصلے کے بعد ادویہ ساز کمپنیز کی آمدنی اور سرمائے میں یک لخت 18 سے26فی صد تک اضافہ ہوگیا۔‘‘
اِس وقت مُلک میں900سے زائد ادویہ کی فارمولیشن رجسٹر ہے، جن میں400 جان بچانے والی اور500 دیگر عام ادویہ ہیں۔ جان بچانے والی ادویہ پر سالانہ7 فی صد اضافے کی اجازت ہے، جب کہ عام ادویہ کی قیمتوں کا تعیّن دوا ساز کمپنیز کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ حکومت کے مطابق یہ کام اِس لیے کیا گیا کہ ادویہ سازی میں مسابقت اور معیار کی فضا پیدا ہو۔
فارماسوٹیکل انڈسٹری
ادویہ کی قیمتوں میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے، عام آدمی کا دھیان فطری طور پر دواساز کمپنیز کی طرف جاتا ہے، لیکن فارماسوٹیکل کمپنیز کے اپنے مسائل اور اپنے مخصوص حالات ہیں۔ اِس وقت مُلک میں 4000 سے زائد غیر مُلکی اور مُلکی یونٹس کام کر رہے ہیں، جب کہ لائسینس کے بغیر کام کرنے والے یونٹس بھی لاکھوں میں ہیں۔ پاکستان کی فارماسوٹیکل انڈسٹری ایک فروغ پذیر صنعت ہے، جس کا کاروباری حجم 748 ارب روپے اور مُلک کی مجموعی قومی پیداوار میں اس کا حصّہ ایک فی صد ہے۔
اِس صنعت پر زیادہ غلبہ مقامی کمپنیز کا ہے، جس کا مارکیٹ میں حصّہ دو تہائی ہے۔ پاکستان 60سے زائد ممالک کو ادویہ برآمد کرتا ہے، جن کی مالیت تقریباً 20کروڑ ڈالر ہے۔ ادویہ کی منہگائی میں ادویہ ساز کمپنیز کے کردار سے متعلق مُلک میں 20 سال سے کام کرنے والی ایک معروف دوا ساز کمپنی کے سی ای او، محمّد فاروق سے بات کی گئی، تو اُنہوں نے کہا کہ’’ ہمارا ادارہ100 سے زائد ادویہ بناتا ہے۔ پاکستان میں فارماسوٹیکل انڈسٹری نے بہت ترقّی کی ہے۔
کسی زمانے میں (مثال کے طور پر)10 لوکل اور90 غیر مُلکی کمپنیز تھیں، تو آج 10 غیر مُلکی اور90لوکل کمپنیز اِس صنعت سے وابستہ ہیں اور ایسا حکومت کی حوصلہ افزائی کی بدولت ہے۔ جہاں تک منہگی ادویہ کا تعلق ہے، تو اس کا دارومدار اُس90 فی صد خام مال پر ہے، جو ہم بھارت، چین اور دیگر ممالک سے منگواتے ہیں۔
اُس کی ادائی ڈالرز میں کرنی پڑتی ہے اور جب بھی ڈالر منہگا ہوتا ہے، ہماری پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے، جس کا لامحالہ ادویہ کی قیمتوں پر اثر پڑتا ہے۔ اب پاکستان میں خام مال کی تیاری کے پلانٹس لگنے شروع ہوئے ہیں، جس سے اُمید ہے کہ اگلے5سال کے دَوران20سے30فی صد خام مال کی ضروریات مُلک کے اندر ہی سے پوری ہوں گی اور اس سے ادویہ کی قیمتوں میں کمی آئے گی۔‘‘
اُنہوں نے اِس تاثر کو غلط قرار دیا کہ کمپنی خود قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ’’پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی منظوری کے بغیر ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ ہماری ادویہ بنانے پر اِتنی زیادہ لاگت آتی ہے کہ منافع صرف15 سے20 فی صد تک ہوتا ہے۔
پھر حکومت کے بے شمار ٹیکس ادا کرنے، کمپنی کو اسٹیٹ آف دی آرٹ بنانے، ورکرز اور ماہرین کو اچھا معاوضہ دینے کے بعد منافع مزید محدود ہو جاتا ہے۔ ہماری انڈسٹری کو مختلف مسائل درپیش ہیں۔ ڈالر کی بڑھتی شرح، خام مال کی بڑھتی قیمتوں، سرکاری ٹیکسز، بجلی کے اخراجات، جی۔ایس۔ٹی، کسٹمز ڈیوٹی اور ری فنڈ میں تاخیر کے مسائل حل کیے جائیں، تو ادویہ کی قیمتیں میں کمی لائی جاسکتی ہے۔‘‘
فارما سوٹیکل کمپنیز سے وابستہ ایک سابق اعلیٰ عُہدے دار، محمّد ارشاد کے نزدیک ادویہ کی قیمتوں میں اضافے میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی،( جس سے درآمد شدہ مال انتہائی منہگا ہوگیا)، متعدّد فارماسوٹیکل کمپنیز اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے بعض افسران کی ملی بھگت، بعض فارماسوٹیکل کمپنیز اور ڈاکٹرز کے درمیان منفی روابط،(جس کے تحت دوا تجویز کرنے کے لیے رشوت دی جاتی ہے)، مُلکی اور غیر مُلکی ادویہ ساز کمپنیز کے انتظامی اور پیداواری اخراجات میں اضافہ اور حکومت کی طرف سے عائد کردہ ٹیکسز کی بھرمار جیسے عوامل شامل ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ’’ادویہ کی قیمتوں میں کمی کے لیے پورا نظام بدلنے کی ضرورت ہے، جس کا فی الحال کوئی امکان دِکھائی نہیں دیتا۔‘‘
ڈریپ (DRAP)
ادویہ کی قیمتوں پر کنٹرول، معیار یقینی بنانے، فارماسوٹیکل کمپنیز کی کارکردگی پر نظر رکھنے، ادویہ کی رجسٹریشن اور دیگر امور کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کا قیام 2012ء میں ایک ایکٹ کے تحت عمل میں آیا۔ یہ ایک خود مختار ادارہ ہے، جو وفاقی وزارتِ صحت کے تحت کام کرتا ہے۔ ادویہ کی قیمتوں میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے، یہ ادارہ بھی تنقید کی زَد میں آتا ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ اس کے فیصلوں اور سفارشات کے پسِ پردہ مریضوں سے زیادہ ادویہ ساز کمپنیز کا مفاد ہوتا ہے۔
میڈیا میں یہاں تک رپورٹ ہوا کہ ڈریپ کے ایک اعلیٰ ترین افسر نے ایک بے نامی فارماسوٹیکل کمپنی بھی کھول رکھی ہے۔ اِس اتھارٹی کے اُس فیصلے کو خاص طور پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس میں کمپنیز کو عام ادویہ کی قیمتوں کے تعیّن کا اختیار دیا گیا تھا۔ اِس فیصلے سے ادویہ کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں۔
اتھارٹی نے قیمتوں میں اضافے پر ہمیشہ یہ مؤقف اختیار کیا کہ ایسا دوا ساز کمپنیز خصوصاً (غیر مُلکی ملٹی نیشنل کمپنیز) کو بُرے مالی حالات سے نکالنے کے لیے کیا گیا، جو ڈالر کی بڑھتی شرح، درآمد کیے جانے والے خام مال کی قیمتوں میں اضافے اور دیگر مسائل سے پریشان تھیں۔
اور اگر ایسا نہ کیا جاتا، تو وہ کاروبار سمیٹ کر چلی جاتیں۔ اِن دلائل کے باوجود بہرحال عام تاثر یہی ہے کہ ڈریپ کی اِن کمپنیز اور میڈیسن سے متعلق دیگر امور پر نگرانی سخت پالیسیز سے عاری اور ایک ڈھیلا ڈھالا مانیٹرنگ کا نظام ہے، جو مریضوں کے مفادات کا تحفّظ کرنے میں ناکام رہا ہے۔
عام آدمی کیا سوچتا ہے؟
آخر میں اِس معاملے پر’’عام آدمی‘‘ کا نقطۂ نظر بھی سن لیں۔ متوسّط طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک ملازمت پیشہ فرد نے مایوسی کا ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔ ’’سَستا علاج معالجہ ہر جمہوری حکومت کا بنیادی فریضہ ہے۔ لوگ اُنہیں ووٹ دے کر منتخب ہی اِس لیے کرتے ہیں کہ وہ اُن کے مسائل حل کریں، لیکن بدقسمتی سے اِس مُلک پر طویل عرصے سے ایک ایسا نظام مسّلط ہے، جس میں عوام کی فلاح و بہبود کسی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی۔
غریب لوگ چاہے دوا کے لیے تڑپ تڑپ کر مر جائیں، لیکن حکومت کو اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ منہگی ادویہ کے معاملے پر ہر ادارے کے پاس’’خُوب صُورت‘‘ جواز موجود ہے، لیکن صحت کے موجودہ بے رحم نظام میں بنیادی تبدیلیاں لائے بغیر سستا علاج، دیوانے کا خواب ہی رہے گا۔‘‘