ڈاکٹر یاسمین شیخ
الرجی یا حَسّاسیت دراصل ایک علامت کا نام ہے، جو جِلد پر خارش، جلن، سُرخی، سُوجن اور لال اُبھرے دانوں کی شکل میں دکھائی دیتی ہے۔ اس کی بےشمار وجوہ ہوتی ہیں، کچھ اندرونی، کچھ بیرونی اور جب تک خارش کی وجہ دُور نہ کی جائے، وقفے وقفے سے الرجی کی شکایت ہوتی رہتی ہے۔ آج کل ہمارے یہاں طرح طرح کے مسائل کی بناء پر منفرد قسم کی الرجیز دیکھنے میں آ رہی ہے۔ مثلاً:
آلودہ پانی کی الرجی
صاف پانی کا7 - PHہوتا ہے۔ نہ اس میں تیزابی خصوصیت ہوتی ہے اور نہ الکلی جیسی۔ گویا درمیانی خوبی رکھتا ہے۔ ایسا ہی پانی وضو کے لیے استعمال کرنے کو کہا گیا ہے، نہ صابن کے استعمال کا حُکم ہے اور نہ کسی اور چیز کے۔ یہ پانی جِلد کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچاتا۔ صفائی کے ساتھ تازگی لاتا ہے، لہٰذا ایسا ہی پانی پینے، کھانا پکانے اور دیگر کاموں کے لیے انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔
جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے دریا، چشمے، برف کے پہاڑ، بارش اور سمندر سب کا انتظام کردیا ہے۔ دیہات میں زیرِ زمین میٹھا پانی گھر گھر میں بورنگ کے ذریعے نکالا جاتا ہے، جو گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں قدرتی طور پر گرم رہتا ہے اور ایسے پانی سے امراض لاحق ہونے کا تناسب بہت کم ہوتا ہے۔
سب سے زیادہ مسائل بڑے شہروں خصوصاً کراچی میں دیکھنےمیں آرہے ہیں، جہاں لائنز میں پانی کم آنے کی بناء پر گھر گھر پانی کھینچنے کی موٹرز لگی ہوئی ہیں۔ جوںہی کسی وقت لائن میں پانی آتا ہے، سب اکٹھے موٹرز چالو کر دیتے ہیں اور پریشر کے سبب پانی کھنچنے لگتا ہے، جب کہ واٹر لائنز میں دراڑوں کےباعث سیوریج کی رساؤ والی لائن کا پانی مل جُل کر ٹینکی میں آجاتا ہے۔ اسی لیے پینے اور استعمال کےاس پانی میں خواتین کبھی زیادہ بدبو کی بھی شکایت کرتی ہیں۔
اور ایسے ہی پانی کی وجہ سے پیٹ کی بیماریاں، خارش، جلن جیسی تکالیف عام ہورہی ہیں۔ جب ایسے پانی کو لیبارٹری میں چیک کیا گیا تو اس میں کئی قسم کے جراثیم پائے گئے۔ اِسی طرح پانی کی کمی کی وجہ سے جب بورنگ کرکے پانی نکالا جاتا ہے، تو کہیں ہلکے کھارے پن والا پانی ہوتا ہے اور کہیں بہت زیادہ نمکین، جو بحالتِ مجبوری جب دھلائی وغیرہ کے لیے استعمال کرتے ہیں، تو خواتین کو زیادہ صابن، سوڈا یا سرف وغیرہ استعمال کرنے سے ہاتھ، پاؤں کی خارش اور جلن والی الرجی کی شکایت ہو جاتی ہے۔
یہی کھارا پانی جب بال دھونے میں استعمال ہوتا ہے، تو جھاگ نہ بننے کی وجہ سے شیمپو زیادہ لگانا پڑتا ہے، جس سے بالوں کی چمک اور نرمی متاثر ہوتی ہے۔ ساتھ ہی سرکی کھال میں عجیب قسم کی کھجلی ہونے لگتی ہے۔ رات کو سوتے ہوئے سر کے اوپری حصّے میں درد اور بےچینی سے نیند تک خراب ہوجاتی ہے۔ بعد ازاں، بال بھی جھڑنے لگتے ہیں۔
کھارے پانی سے نہانے کے سبب کچھ لوگوں میں جِلد میں جلن اور نہانے کے بعد بدن پر سُرخی، خشکی اور ایک بےچین کردینے والی خارش بھی ہوتی ہے۔ اور لگ بھگ گھر کے تمام افراد کو یہ شکایت ہوتی ہے، البتہ جب کہیں سے میٹھا پانی منگوا کر غسل کرتے ہیں، تو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ نہ کسی دوا کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ مالش کی رنگ برنگی کریمز کی۔ مطلب، اس وقت عوام کئی قسم کا پانی استعمال کر رہے ہیں۔ ایک لائن کا مِلا جُلا، دوسرا بورنگ کا اور تیسرا میٹھا پانی، جو خرید کرلانا پڑتا ہے۔
احتیاطی تدابیر
اگر گھر میں گیس میسّر ہو، جو کہ اکثر غائب ہی رہتی ہے، تو جس قدر ممکن ہو، پانی ابال کراستعمال کریں، جس سے جراثیم مرجائیں گے اور نمکیات پھٹ کر الگ ہوجائیں گے۔ اس کے بعد اُسے چھان کر سر دھونے اور کپڑے، برتن وغیرہ دھونے میں بآسانی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
آلودہ مچھلی کی الرجی
مچھلی، پروٹین حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے، خواہ یہ سمندر سے نکالی جائے یا دریا سے، دونوں نعمتیں ہیں، البتہ اپنی غلطیوں سے یہ نعمت، زحمت اُس وقت بن جاتی ہے، جب طرح طرح کی گندگیاں، کیمکلز وغیرہ اس پانی میں پھینک دیئے جاتے ہیں۔ چوں کہ یہ مچھلیاں خوراک کی تلاش میں سمندر یا دریا کے کنارے آتی ہیں، تو اگر اُن کے بدن میں یہ اجزاء چلے جائیں، تو ان کے گوشت پر اثرانداز ہوسکتے ہیں اور کھانے والے کو الرجی بھی ہو سکتی ہے۔
اس الرجی کے وہ لوگ زیادہ شکار ہوتے ہیں، جوکناروں کی ننّھی مچھلیاں پکڑ کر فرائی کر کے کھاتے ہیں۔ بارہا مچھلی کے شکار پر جانے والے مچھیروں میں نہایت شدید الرجی دیکھی گئی ہے، جس میں سانس بھی گُھٹنے لگتا ہے۔ اور کبھی ایک خاندان، تو کبھی دوسرا خاندان اس مرض میں مبتلا دکھائی دیتا ہے اور سب کی علامات ایک جیسی ہوتی ہیں۔
واضح رہے کہ یہ مچھیرے گہرے سمندر میں ٹرالر لے کر جاتے وقت بھی ٹھیک ہوتے ہیں اور واپسی پر گہرے سمندر سے شکار کی ہوئی مچھلیاں لے کر آتے وقت بھی ٹھیک نظر آتے ہیں، مگر جب اپنی پسندیدہ ننّھی مُنّی مچھلیاں، جنھیں آخر میں سمندر کنارے سے پکڑ کر لاتے اور کھاتے ہیں، تو صُبح تک حالت خراب ہوجاتی ہے۔ ہر مرتبہ تو ایسا نہیں ہوتا، مگر وقفے وقفے سے یہ شکایت دیکھی جارہی ہے۔
اُن کی خواتین سے دریافت کیا جائے کہ مچھلی صاف کرتے وقت اُنہوں نے کیا دیکھا، تو بتاتی ہیں کہ چند مچھلیاں ایسی تھیں کہ جب اُن کے پیٹ چاک کیے گئے تو اُن میں سے سیال مائع (پیٹرول، ڈیزل یا عجیب سا رنگ دار کیمکل) نکلا تو ہم نے ایسی مچھلیوں کو خوب صاف کر کے، ڈبل مسالا لگا کر تلا اور کھایا۔ اور پھر جس جس نے وہ مچھلی کھائی، اس کی حالت خراب ہوئی اور صُبح سویرے اسپتال میں داخل کروانا پڑا۔ اِن افراد کا پورا بدن سُرخی، خارش سے بَھرا ہوتا ہے۔ ہونٹ خُوب سوجے ہوئے ہوتے ہیں۔
سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہوتی ہے۔ فوری علاج سے الرجی وقتی طور پر ختم ہوجاتی ہے، لیکن درحقیقت، الرجی اُن کیمیکلز کے باعث ہوتی ہے، جو مچھلی کے گوشت میں سرایت کیے ہوتے ہیں، لہٰذا مچھلیاں صاف کرتے وقت اگر کسی مچھلی میں کسی کیمیکل کی بُو محسوس ہو تو اُسے فوری ضایع کردیں۔ باقی صاف مچھلیاں ضرور کھائیں، کیوں کہ یہ ایک بہترین غذا ہے، جو جِلد، بالوں اور ناخنوں کے لیے حد درجہ فائدہ مند ہے۔
مٹّی کی الرجی
بعض بچّوں میں مٹّی چاٹنے کی عادت پائی جاتی ہے۔ یہ بچّے کھیلتے ہوئے چُٹکی بھرمٹّی منہ میں رکھ لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ گملوں کی گوبر بھری مٹّی کھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگر بچپن ہی میں بہت اچھی طرح نگرانی کر کے اُن کی یہ عادت چُھڑوا دیں، تو ٹھیک ہوجاتے ہیں، وگرنہ عادت پختہ بھی ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ عموماً دیہات میں عورتیں ملتانی مٹی کی ٹھیکری، بسکٹ کی طرح توڑ کر کھاتی ہیں، خصوصاً دورانِ حمل جب اُن کے منہ کا ذائقہ خراب ہوجاتا ہے، تو اس کا استعمال بڑھ جاتا ہے اور یہ عادت اُنہیں بچپن ہی سے پڑی ہوتی ہے۔
شہروں میں بھی ایسی بچیاں جب بڑی بھی ہوجاتی ہیں اور دل مٹّی کھانے کو چاہتا ہے، تو دیوار کے رنگ کو انگلی سے کُرید کر چاٹ لیتی ہیں۔ بعض ایسے کیسز بھی دیکھے گئے ہیں، جن میں خواتین صابن چاٹتی ہیں یا واشنگ پاؤڈر انگلی پر لگا کر چاٹ لیتی ہیں۔ یہ بچیاں اور خواتین عموماً دیگر کے مقابلے میں کم زور، چڑچڑی اور سیاہی مائل رنگت کی حامل ہوتی ہیں۔
نیز، ان کے بالوں کی رنگت پھیکی، ناخن بدرنگ اور جسم پر دانوں، خارش وغیرہ کی شکایت کے ساتھ بے چینی، پیٹ میں درد کا عارضہ بھی لاحق رہتا ہے۔ جب کہ اُن کی ہم عُمر لڑکیاں، خواتین تروتازہ، خُوب صُورت نظر آتی ہیں۔ اُن کے ٹیسٹس کروانے پر پیٹ کے جراثیم اور خون میں واضح کمی پائی جاتی ہے اور اگر وہ یہ عادت ترک کردیں، تو احتیاط، علاج اور قوّتِ ارادی سے جِلد بالکل ٹھیک بھی ہوجاتی ہیں۔
ناخن خوری کی الرجی
بعض بچّے منہ میں انگلی یا انگوٹھا رکھ کر چوستے رہتے ہیں۔ جب موقع ملتا ہے، یہ کام شروع کردیتے ہیں، خصوصاً اُس وقت جب وہ تنہا ہوں یا توجّہ کم ملنے پر ضد پر اُتر آئیں۔ یہاں تک کہ اِ ن کے ہاتھ باندھ بھی دیں، تو فائدہ نہیں ہوتا۔ ان بچّوں پر بہت توجّہ دینے، انہیں سمجھانے کی ضرورت ہوتی ہے، ساتھ ہی اُن کو بروقت اچھی خوراک ضرور دینی چاہیے تاکہ صحت مند رہیں۔ ایسے بچّے محبّت اور توجّہ کے زیادہ حق دار ہوتے ہیں۔ یہی بچّے جب ذرا بڑے ہو جاتے ہیں، تو بیٹھے بیٹھے اپنے ناخن چبانے لگتے ہیں۔
ویسے یہ عادت بھی لڑکیوں میں زیادہ دیکھی گئی ہے۔ اور بڑے ہونے پر ان کی صحت ٹھیک نہیں رہتی۔ پیٹ درد، بھوک میں کمی، رنگت کی خرابی، ناخنوں کے کناروں کی جِلد کا موٹا ہو کر پک جانا اور اُس میں درد اور خارش کی شکایت عام ہیں۔ نیز، جب وہ صابن یا ڈش واشنگ کا محلول استعمال کرتی ہیں یاکپڑوں میں سرف یا بلیچ ڈال کر دھلائی کرتی ہیں، تو کیمیکل کی وجہ سے انگلیوں کی پوروں میں خارش والے، پانی بَھرے باریک باریک دانے نکل آتے ہیں۔ ناخن تو خراب ہوتا ہی ہے، مگر خارش کی وجہ سے انگلیوں کی کھال موٹی اور کالی ہوجاتی ہے۔
ان لڑکیوں کو اُس وقت زیادہ شرمندگی محسوس ہوتی ہے، جب اُن کے ناخن اپنی سہیلیوں کے مقابلے میں بُری طرح کترے ہوئے دکھائی دیتے ہیں یا چھوٹے رہ جاتے ہیں، تب وہ کسی محفل میں اپنی مٹھی بند رکھنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ جب کہ ناخن چبانے سے پیٹ میں مختلف جراثیم بھی چلے جاتے ہیں، تو اِن کے دانت بھی کناروں سے ناہم وار ہونے لگتے ہیں۔ ایسے بچّے یا بچیاں، خصوصاً امتحانات کے زمانے میں پڑھائی کے دباؤ کی وجہ سے اکیلے میں منہ میں ناخن رکھ کر چبانے لگتے ہیں۔
گھر والوں کو ان بچّوں پر خاص توجّہ دینی چاہیے تاکہ نفسیاتی دباؤ کم ہوسکے۔ یہ لڑکیاں عموماً بڑے ہو کر اپنی ساتھیوں کے خوب صُورت، چمک دار ناخن دیکھ کر خواہش کرتی ہیں کہ اُن کے ناخن بھی درست ہوجائیں۔ تو اُنہیں اچھی خوراک اور خود پر کنٹرول ہی اس مشکل سے نجات دلا سکتے ہیں۔ چوں کہ اس عمل سے ناخن بڑھنے کی رفتار سُست ہوجاتی ہے، لہٰذا تھوڑا صبر کرنا پڑتا ہے، لیکن بہرکیف ناخن نہ صرف ٹھیک ہوجاتے ہیں بلکہ ارد گرد کی جِلد بھی تندرست ہوجاتی ہے۔
اس کے علاوہ وہ بعض خواتین، جن کے چھوٹے چھوٹے بچّے ہوتے ہیں، ناخنوں سے اپنی خارش زدہ جِلد کو اتنا کھجاتی ہیں کہ ہاتھ اور کلائی سے خون رِسنے لگتا ہے اور دیکھنے میں اُن کے ناخن بھی ایسے ہی لگتے ہیں، گویا چبائے گئے ہوں، تو انہیں ایسا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ یاد رکھیے، کسی بھی الرجی کاعلاج دوا ہے، نہ کہ زور زور سے کُھجانا۔
خالی پیٹ کے سبب، جِلد میں خارش
آج کل عموماً لڑکے، لڑکیاں دیر تک جاگنے کے بعد صُبحِ دم اسکول یا مدرسے جانے کی جلدی میں ناشتے پر توجّہ نہیں دیتے۔ کچھ تو پڑھائی کی وجہ سے جاگتے ہیں، باقی موبائل میں مصروف رہتے ہیں۔
سو، صُبح چند منٹ میں لباس بدل کر ایک دو نوالے کھا کر (اور کبھی کبھی وہ بھی نہیں) اسکول، کالج روانہ ہی جاتے ہیں اور بچّوں کی کیا بات، آج مائیں یا دیگر خواتین خُود بھی رات دیر سے سوتی ہیں، لہٰذا ناشتا بنانے کا رجحان ہی ختم ہو رہا ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ بچّے رات کا کھانا آٹھ یا نو بجے تک کھا کر صُبح خالی پیٹ اسکول، کالج، یونی ورسٹیز چلے جاتے ہیں اور پھر گیارہ، بارہ بجے بریک میں بازاری تلی، بُھنی اشیاء ہی پر گزاراہ کرتے ہیں۔
کچھ بچیاں تو بھوکی رہنے کی اس قدرعادی ہوجاتی ہیں کہ پھر اُنہیں بھوک لگتی ہی نہیں اور وہ گھر آکر دو بجے تک کھانا کھاتی ہیں۔ یوں بچّوں کی اکثریت کم ازکم چودہ تا سولہ گھنٹے خالی پیٹ رہنے لگی ہے، جس سے صحت گر رہی ہیے۔ وزن نہیں بڑھتا، جِلد کی رنگت گہری ہورہی ہے۔ جِلد میں خوراک کی طاقت نہ ہونے سے جِلد خشک ہونے لگی ہے۔ جگہ جگہ سے بھربھری میل جھڑتی ہے، سر میں خشکی ہو جاتی ہے اور خشک جِلد کھردری ہونے کی وجہ سے خارش دیتی ہے۔
طرح طرح کی دوائیں کھانے اور مرہم لگانے سے بھی کسی قسم کا فائدہ نہیں ہوتا، خاص طور پر لڑکیوں کے سر کے بالوں کی رنگت اور موٹائی دونوں خراب ہو رہی ہیں۔ یہ بچّے پانی بھی زیادہ نہیں پیتے، لہٰذا پیشاب میں جلن کی شکایت عام ہے۔ انہیں قبض بھی رہتی ہے۔ خون کے ٹیسٹ کی رپورٹ خاصی خراب آتی ہے۔ فاقہ کشی کے باعث خون میں نمکیات اور شکر کی مقدار بھی گرجاتی ہے۔ چوں کہ قدرت نے رات آرام کے لیے اور دن معاش و تعلیم کے لیے بنائے ہیں۔
سو، کھانے پینے کے اوقات بھی صُبح سے شروع ہو کر دوپہر اور رات پر مشتمل ہیں۔ جوں ہی یہ بچّےصبح اچھا ناشتا، جس میں پراٹھا، ڈبل روٹی، مکھن، یا انڈا، دہی، دودھ، میسّر ہو، کرنا شروع کرتے ہیں، اِن کی صحت اور توانائی تیزی سے بحال ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اس ضمن میں اساتذہ کو بھی سختی کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر اسکول یا مدرسے کے اساتذہ بچّوں سے ضرور دریافت کریں کہ آج کون خالی پیٹ آیا ہے؟ اور اُنہیں ناشتا لازماً کرنے کی ترغیب دیں۔ عموماً بچّے اساتذہ کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں، تو وہ اُن کی ہدایات پر ضرور عمل کریں گے۔
پرندوں، خصوصاً کبوتروں سے الرجی
کبوتر اور دیگر پرندے صدیوں سے اُڑتے، درختوں میں بسیرا کرتے یا گھروں کی چھتوں، روشن دانوں اور ایئرکنڈیشنرز کے آس پاس بیٹھے نظر آتے ہیں۔ جب تک اِن کبوتروں کی تعداد نسبتاً کم تھی اور دیگر پرندوں کی طرح اِدھر اُدھر جاکر پیٹ بھر لیتے تھے، اِن کے پَروں یا بیٹ سے پیدا ہونے والی آلودگی بھی کم تھی۔
صرف کبھی کبھار اِن کے بدن میں موجود باریک کیڑے (MITES) کمرے کے کسی سوراخ یا اے۔ سی کے ذریعے اندر آکر انسانوں کو کاٹتے تھے، جس سے جسم میں جگہ جگہ سرسراہٹ یا خارش محسوس ہوتی اور یہ کیڑے کمرے میں اسپرے کرنے، اے۔سی کی صفائی اور کبوتروں کو جائے قیام سے ہٹا دینے پر ختم ہوجاتے، لہٰذا زیادہ مسئلہ پیدا نہیں ہوتا تھا۔
مگر حالیہ دس، بارہ سالوں سے شہر میں کبوتروں کی تیز رفتار افزائش کے سبب ان کی تعداد میں بے حد اضافہ ہوچُکا ہے۔ جب یہ جگہ جگہ ڈالے گئے دانے پر غول در غول پَروں کو پھڑپھڑاتے زمین پر اُترتے ہیں، تو ان کے پَروں میں موجود غبار باریک باریک ذرات کی شکل میں ہوا میں بس جاتا ہے۔ ساتھ ہی اِن کی بے تحاشا بیٹ سے باریک دھول پیدا ہوتی ہے۔ یہ ذرّات اپنے اندر اینٹی جن(ANTIGEN) لیے ہوتے ہیں، جو ہوا کی بدولت سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر اُس کے مدافعتی نظام کو متحرک کردیتے ہیں۔
نتیجتاً انفیکشن کی بناء پر کھانسی، سانس کی تکلیف، دمہ، نمونیا اور بدن میں جگہ جگہ پتی اچھلنے، بے چین کر دینے والی خارش کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر طویل عرصے تک یہ سلسلہ جاری رہے، تو متاثرہ شخص کے پھیپھڑوں کی غبارا نما بناوٹ (ALVEOLI) کی نرم پتلی سطح موٹی ہونے لگتی ہے۔ سانس لینے پر اس میں ہوا کے لیے جگہ کم ہوجاتی ہے، تو گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے کھینچ کھینچ کر بھی سانس لیں تو تسلی نہیں ہوتی۔
اگر مرض کی بروقت تشخیص اور علاج ہوجائے، تو ٹھیک ہوسکتا ہے، لیکن تکلیف بڑھ جائے تو پورے پھیپھڑے میں نرمی کی جگہ سختی آجاتی ہے، جسے فائبروسس (FIBROSIS) کہاجاتا ہے۔ اور یہ لاعلاج مرض ہے، جس میں صرف جان بچانے والی ادویہ وقتی فائدہ دیتی ہیں، مریض کو آکسیجن کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور چوبیس چوبیس گھنٹے ناک میں آگسیجن کی نالی لگانا اور آکسیجن سلینڈر رکھنا ضروری ہوجاتا ہےکہ اگر لمحے کے لیے آکسیجن کی سپلائی بند ہو جائے تو مریض تڑپ کے رہ جاتا ہے۔
یہ نایاب بیماری بی ایف ایل BFL یعنی (PIGEON OR BIRD FANCIER'S LUNG) اب ایک بڑا مسئلہ بن رہی ہے۔ حالیہ چند سالوں میں شہر کے بڑے اسپتالوں کے شعبۂ امراضِ سینہ میں اس نایاب بیماری کے شکار مریضوں کی خاصی تعداد دیکھی جا رہی ہے۔
احتیاطی تدابیر
جو لوگ پرندے، خصوصاً کبوتر یا ننھے توتے وغیرہ پالتے یا اُن کی تجارت کرتے ہیں، انہیں چاہیے کہ جب اُن کے قریب جائیں تو ناک پر ماسک، ہاتھوں میں دستانے پہن لیں۔ جن کپڑوں میں ملبوس ہوں، پرندوں کو دانہ، پانی ڈالنے کے بعد، اُنہیں تبدیل کر لیں، خصوصاً بچّوں کو تب تک اپنے قریب نہ آنے دیں، جب تک کپڑے تبدیل نہ کر لیں اور ہاتھ منہ، سر نہ دھولیں۔
نیز، گھروں میں پالے پرندوں کے پنجرے، بالکونی وغیرہ کی صفائی کےوقت بھی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ بیٹ کو جھاڑو سے اُڑانے کے بجائے پانی سے دھوئیں تاکہ غبار نہ اُڑے اور جوں ہی الرجی وغیرہ کی کوئی شکایت محسوس ہو، فوری طور پر کسی ماہر معالج سے رجوع کریں۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراض جِلد ہیں اور انکل سریا اسپتال، کراچی میں خدمات انجام دے رہی ہیں)