• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک طرف بارشوں اور سیلاب کی تباہی نے خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں تباہی مچا دی جس سے سینکڑوں افراد جاں بحق ہو گئے، گاؤں کے گاؤں ملیا میٹ ہو گئے جس سے ہر دل افسردہ ہے۔ وہاں کے رہنے والے کہتے ہیں کہ ایسی تباہی اور پہاڑوں سے آتے پانی کے ریلے، جو رستے میں حائل ہر شہ کو بہا لے گئے، کبھی ماضی میں دیکھے نہ سنے۔ دوسری طرف پاکستان میں خواتین کے کپڑوں کے ایک بڑے برینڈ کی مالک محترمہ ماریہ بی کی طرف سے ایک انتہائی تشویش ناک خبر سوشل میڈیا پرشیئرکی گئی۔ اُنہوں نے ایک وڈیو بھی دکھاتے ہوئے یہ بتایا کہ اگست کے مہینے میں ہی لاہور میں ایک جگہ ہم جنس پرستی یعنی LGBTQ کا ایک شو منعقد کیا گیا جس میں ہم جنس پرست مردوں نے، جو اپنے آپ کو ٹرانسجنڈر کہتے ہیں ،بےشرمی اور بے ہودگی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور یہ سب بے شرمی اور بے غیرتی پاکستانی معاشرے میں پھیلانےکیلئے باقاعدہ اسٹیج پر ہم جنس پرستی کو پروموٹ کیا گیا۔ بے غیرتی اور بے شرمی کے اس شو کی کچھ جھلکیاں بھی دکھائی گئیں۔ ماریہ بی صاحبہ کا کہنا تھا کہ حکام یعنی پنجاب حکومت کو بے شرمی اور بے غیرتی کے اس شو کے متعلق علم تھا لیکن اُنہوں نے اسے نہیں روکا۔ مجھے جب کسی نے اس بارے میں گزشتہ روز اطلاع دی تو میں نے وفاقی اور پنجاب حکومت کے ذمہ داران سے ماریہ بی صاحبہ کا سوشل میڈیا پر موجود پیغام شیئر کیا اور ذمہ داروں کے خلاف فوری ایکشن کا مطالبہ کیا۔ میں نے سوشل میڈیا پر بھی اس مسئلہ پر اپنی آواز اُٹھائی۔ شام کو پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر سے میری بات ہوئی جنہوں نے بتایا کہ اس واقعہ کا نوٹس لے کر پولیس کو ایکشن لینے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ ابھی یہ معلوم نہیں کہ ایکشن کیا لیا گیا اور کیا اس کے نتیجے میں اس شو کو منعقد کرنے والوں اور اس میں شرکت کرنے والوں پر ہاتھ ڈالا گیا یا نہیں۔ ابھی یہ بھی معلوم نہیں کہ پنجاب حکومت کے کن حکام کو اس شو کے بارے میں علم تھااور اُنہوں نے اسے روکنے کیلئے کچھ کیوں نہ کیا۔ پنجاب حکومت کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب صاحبہ کا کہنا تھا کہ کسی بھی صورت میں ایسی حرکت قابل برداشت نہیں اور اس پر ایکشن لیا جائے گا۔ یہ معاملہ بہت سنگین ہے کیوں کہ اگر اس گندگی اور بے غیرتی کو سختی سے نہ روکا گیا تو ہمارے معاشرےاور ہماری آنے والی نسلوں پر اس کے تباہ کن اثرات ہوں گے۔ ہم جنس پرستی کی لعنت کو جس انداز میں مغرب پوری دنیا میں پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے اس سے ہمیں اپنے آپ کو اپنی نسلوں کو ہر حال میں بچانا ہے اور بحیثیت انسان، مسلمان اور پاکستانی یہ ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ سب سے اہم ذمہ داری بلاشبہ ریاست کی ہے کہ ہم جنس پرستی کے فتنہ کو کسی شکل میں بھی یہاں پنپنے نہ دے۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ، عدلیہ، میڈیا سب کو LGBTQ کی لعنت کو یہاں پھیلنے یا اس کی کسی شکل کو مغرب کے پریشر میں قانونی شکل دینے سے روکنا ہے۔ پہلے ہی ٹرانسجینڈر کے نام سے ایک متنازعہ قانون پاس کیا جا چکا ہے جس کو شرعی عدالت کے ساتھ ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی غیر اسلامی قرار دیا۔ ایسے قوانین کی اسلامی تعلیمات اور آئین پاکستان کے مطابق کسی صورت میں یہاں لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ ٹرانس جینڈر کے نام پر ہم جنس پرستی کو پھیلایا جا رہا ہے اور اس میں حکومتوں اور پارلیمنٹ کو سیکھنا پڑے گا کہ اُن سے کہاں اور کیا غلطیاں ہوئیں اور اُنہیں کیسے درست کیا جائے۔ افسوس کے میڈیا کا ایک طبقہ انسانی حقوق اور آزادی کے نام پرہم جنس پرستی کو پھیلانے کے لیے فلموں، ڈراموں اور حتیٰ کہ ٹی وی شوز کو بھی استعمال کر رہا ہے۔ اس سب کو روکنے میں ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر خاموش رہے یا مغرب کے دباؤ یا روشن خیال بننے کا مظاہرہ کرتے رہے تو ہم جنس پرستی کی یہ لعنت مغربی معاشرےکی طرح ہمارے ہاں بھی گھر گھر میں پھیل جائے گی اور پھر نہ پچھتاوے کا کوئی فائدہ ہو گا اور نہ ہی ہم میں سے کوئی کچھ کرنے کے قابل ہو گا۔ فحاشی و عریانیت جسکی وجہ سے ریپ، بچوں سے زیادتی، زنا اور ہم جنس پرستی جیسی برائیاں معاشرے میں پھیلتی ہیں کو بھی روکنے کی ذمہ داری ہم سب کو پوری کرنی پڑے گی اور اس حوالے سے میڈیا یا مغرب سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ڈریں تو وہ جو غلط کام کریں اور اس ڈر اور خوف کو ختم کرنے کی ذمہ داری ریاست، حکومتوں اور ریاستی اداروں کی ہے۔ ہمیں اپنی آواز بلند کرتے رہنا چاہئے، بُرائی کو بُرائی کہتے رہنا چاہئے۔

تازہ ترین