کراچی (رفیق مانگٹ) برطانوی جریدے اکانومسٹ کے مطابق پاکستان نے امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ 2021ء میں افغانستان سے انخلا کے بعد وہاں رہ جانے والے ہتھیاروں کی واپسی کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ یہ ہتھیار خطے کے لیے سنگین خطرہ ہیں کیونکہ یہ بلیک مارکیٹ کے ذریعے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ ان کے مطابق "افغانستان میں ہر چیز سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو دستیاب ہے"، اس لیے امریکا کو چاہیے کہ وہ ان ہتھیاروں کو بلیک مارکیٹ سے واپس خریدنے پر غور کرے تاکہ ان کا غلط استعمال نہ ہو سکے۔پاکستان نے واشنگٹن سے مزید انٹیلی جنس شیئرنگ اور انسدادِ دہشت گردی کے لیے فوجی سازوسامان کی فراہمی دوبارہ شروع کرنے کی بھی درخواست کی ہے۔ امریکا اس معاملے پر محدود سطح پر غور کر سکتا ہے، جیسے مائن مزاحم بکتر بند گاڑیاں اور رات کو دیکھنے والے آلات دینا، تاہم بھارت ایسے کسی بھی اقدام کی سخت مخالفت کرے گا، جو پہلے ہی امریکی دفاعی سازوسامان کا بڑا خریدار ہے۔اسلام آباد کا ایک اور اہم مطالبہ یہ ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک پاکستان کے اس مؤقف کو تسلیم کریں کہ بھارت تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق حالیہ دنوں میں غیر ملکی حکومتوں کے سامنے نئے شواہد پیش کیے گئے ہیں تاکہ بھارت پر ان سرگرمیوں کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔اعداد و شمار کے مطابق 2024ء میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں کے نتیجے میں 1,081 افراد ہلاک ہوئے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 45 فیصد زیادہ ہیں۔اکثر امریکی حکام نے ماضی میں پاکستان کے کردار کو غیر معمولی نہیں سمجھا، تاہم جون میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے اس وقت کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا نے پاکستان کے تعاون کو "غیر معمولی" قرار دیا۔ یہ اعتراف اس لیے حیران کن تھا کہ واشنگٹن طویل عرصے سے اسلام آباد پر افغان طالبان کی حمایت اور اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کے الزامات عائد کرتا رہا ہے۔اکانومسٹ کے مطابق اس پالیسی میں تبدیلی کی وجہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی علاقے ہیں، جو اب داعش خراسان (آئی ایس کے پی) کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ مغربی حکومتیں اسے اپنے لیے سب سے بڑا بین الاقوامی دہشت گرد خطرہ تصور کرتی ہیں اور اسی وجہ سے طالبان کے ساتھ پس پردہ رابطے بھی بڑھائے جا رہے ہیں۔مغربی ممالک کی درخواست پر پاکستان نے گزشتہ ایک سال میں آئی ایس کے پی کے خلاف کارروائیاں تیز کیں اور اس کے کئی رہنماؤں کو گرفتار یا ہلاک کیا۔ انہی میں وہ شخص بھی شامل ہے جس پر الزام تھا کہ اس نے اگست 2021ء میں کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے خودکش حملے کی منصوبہ بندی کی تھی، جس میں 13 امریکی فوجی اور 170 شہری ہلاک ہوئے تھے۔ پاکستان نے اسے فروری میں گرفتار کیا اور مارچ میں امریکا کے حوالے کر دیا، جس پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تعریف کی۔ مغربی ماہرین کے مطابق آئی ایس کے پی کے پاس اب بھی 4,000 سے 6,000 جنگجو ہیں، جن میں تاجک، ازبک اور ترک شامل ہیں۔ یہ زیادہ تر مشرقی افغانستان اور پاکستان کے شمالی و جنوب مغربی حصوں میں سرگرم ہیں اور بغیر کسی پیشگی اطلاع کے مغربی مفادات کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔