مون سون کا موسم شروع ہوتے ہی کراچی کے شہری خوش ہونے کے بجائے خوف کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ برسوں سے اس عذاب سے گزرتے آرہے ہیں اور ہر برس سرکاری حکام طفل تسلی اور بیانات کے ذریعے انہیں بہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس برس بھی اُنّیس اگست کو ہونے والی تیز بارش کی وجہ سے لوگوں نے طویل ٹریفک جام، جگہ جگہ برسات کا پانی جمع ہونے اور گھروں، دفاتر اور دکانوں میں پانی داخل ہونے کا عذاب جھیلا۔
ان تمام مسائل کی وجہ شہر کے برساتی نالوں کی ناگفتہ بہ صورت حال ہے۔ شہری منصوبہ بندی کے ماہرین کے مطابق اگر اس جانب فوری توجہ نہیں دی گئی، تو ہر گزرتے دن کے ساتھ صورت حال بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔
میگاپولیٹن کراچی اور ساون کے دُکھ
کراچی میگا پولیٹن شہر ہونے کے باوجود اتنا بدقسمت ہے کہ قیامِ پاکستان کوپون صدی سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس کا کوئی ماسٹر پلان نہیں بن سکا ہے۔ حالاں کہ اس شہر کو ملک کا پہلا دارالحکومت ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور یہ طویل عرصے تک پاکستان کا دارالحکومت رہا۔ شہری منصوبہ بندی کے ماہرین کے مطابق شہر کا ماسٹر پلان نہ ہونا اس شہر کے زیادہ تر مسائل کی جڑ ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہر کا نکاسیِ آب کا نظام جب تک صحیح خطوط پر اُستوار نہیں ہوگا، اُس وقت تک شہرکے بہت سے مسائل ٹھوس بنیادوں پر حل نہیں ہوں گے۔ نکاسیِ آب کے نظام کی بات کی جاتی ہے تو اس میں بارش کے پانی اور گند آب کی نکاسی شامل ہوتی ہے۔ کراچی میں یہ دونوں نظام بہت بُری حالت میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہر میں جب بھی تھوڑی یا زیادہ بارش ہو پانی سڑکوں پر اور گلیوں میں جمع ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی گٹر اُبلنے لگتے ہیں۔
اس سال بھی بارشوں میں اسی قسم کی شکایات سامنے آئیں اور مون سون ایک بار پھر کراچی کے لیے موت اور مصائب کے علاوہ کچھ نہیں لایا اور اُنّیس اگست کو ہونے والی تیز بارش نے اس بدقسمت شہر کو مفلوج کردیا ہے۔ بارشوں سے تباہی کے واقعات ملک کے دیگر حصوں، جیسے خیبرپختون نخوا، گلگت بلتستان اور پنجاب میں بھی دیکھنے میں آئے ہیں جہاں سیکڑوں افراد لقمہ اجل بنے۔
لیکن کراچی میں اربن فلڈنگ کا مسئلہ کئی حوالوں سے منفرد ہے جو خراب منصوبہ بندی اور غیر منظم ترقی کی وجہ سے بڑھا ہے۔ میئر کراچی نے اس تباہی کی وج موسمیاتی تبدیلی کو قرار دیا ہے۔ اگرچہ موسمیاتی تبدیلی، غیرمعمولی موسمیاتی خرابی اور گلوبل وارمنگ کی ذمہ دار ہے، لیکن اسے کراچی کی حالت زار کااصل ذمے دار قرار نہیں دیا جا سکتا، کیوں کہ ہر سال مون سون کے بادل آتے ہی ہمیں شہر میں یہی صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے۔
سیلاب کا منظر پیش کرتی سڑکیں، گھنٹوں سڑکوں پر پھنسے ہوئے لوگ اور حبس کے موسم میں طویل عرصے تک بجلی کی بندش، مذکورہ بارش کے محض کچھ نتائج تھے۔ یقیناً اس بار شہر کے بہت سے حصوں میں بہت زیادہ بارشیں ہوئیں لیکن اس سے قبل بھی نسبتاً کم بارشوں نے بھی شہری زندگی کے پہیے کو جام کیا۔
موٹر سائیکل اور کار سواروں کو گھٹنوں اور کمر تک آتے پانی میں پھنسے ہوئے اور بارش کا پانی گھروں اور اپارٹمنٹ کی عمارتوں میں داخل ہونے کے مناظر ظاہر کرتے ہیں کہ شہر کے نکاسیِ آب کے نظام میں سنگین خرابی ہے۔ اور مسئلہ حل کرنے کی کچھ کوششوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
مثال کے طور پر اعلی طبقے کے علاقے، ڈی ایچ اے میں مبینہ طور پر کروڑوں روپے کی لاگت سے نکاسی کا نظام قائم کیا گیا تھا، لیکن پھر بھی یہ علاقے کو شہری سیلاب کی صورت حال سے بچانے میں ناکام رہا۔ ڈی ایچ اے شہری اداروں کے دائرہ اختیار سے باہر اور کنٹونمنٹ بورڈ کے زیرِتحت ہے۔ کم آمدنی والے طبقے کےاور نشیبی علاقوں کے باسی بھی اسی طرح متاثر ہوئے۔
سپریم کورٹ اور آزاد شہری ماہرین سے لے کر سوشل میڈیا پر اظہارِ برہمی کرتےہوئے لوگوں تک، سب ہی نے اس حقیقت پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے کہ کراچی میں مناسب نکاسی آب کا نظام نہیں ہے اور یہ کہ مون سون سے متعلق تباہی ہر سال کا معمول بن چکی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ کئی دہائیوں سے حل طلب ہے اور اس کا ذمے دارصرف موجودہ حکومت کو ٹھہرانا ناانصافی ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے آنے والی انتظامیہ نے کراچی کو نظرانداز کیا ہے یا شاذو نادر اس کے مسائل پر لب کشائی کی۔ دوسری جانب تجاوزات اور زمین پر قبضہ کرنے والوں نے اس کا چہرہ بگاڑ دیا ہے۔
کراچی کے شہری مسائل بہ شمول ناقص نکاسیِ آب کا نظام پے چیدہ ہیں اور کئی دہائیوں سے نظر اندازکیے جانےکے باعث انہیں ہفتوں یا مہینوں میں حل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن شروعات شہر کے اہم مسائل، بنیادی طورپر ٹھوس فضلے کو ٹھکانے لگانے، پانی کی فراہمی، کام کرنے والا سیوریج سسٹم، زمین کا منصفانہ انتظام وغیرہ سے ہونی چاہیے۔
واضح رہے کہ یہ سب مسائل آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک بہتر بلدیاتی نظام جو مقامی مسائل فوری حل کرے اور لوگوں کو جواب دہ ہو، کراچی کی شہریوں کی پریشانیاں دُور کرنے کے لیے ضروری ہے، کیوں کہ کراچی میں زمین کو کنٹرول کرنے والے متعدد ادارے بھی شہری نظم و نسق کوپے چیدہ بناتے ہیں۔
بغیر منصوبہ بندی کے پھیلتا شہر
کراچی کی ساٹھ تاستّر فی صد آبادی کچّی بستیوں میں رہتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شہر میں کچّی آبادیوں کی تعداد میں سالانہ نو فی صد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ شہر کی آبادی سالانہ چار اعشاریہ آٹھ فی صد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ کچّی بستیاں چوں کہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے بستی ہیں، لہٰذا وہاں کوئی بھی شہری سہولت (یوٹیلٹی سروس) باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت فراہم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ تاہم ان بستیوں میں حکومت اور عوام نے اربوں روپے خرچ کرکے گند آب اور بارش کے پانی کی نکاسی کا نظام تعمیر کیا ہے، جو بارش کے پانی اور فضلے کو کُھلے فطری نالوں تک لے جاتا ہے۔
منصوبہ بندی کے تحت بسائے گئے علاقوں سے بھی گند آب اور بارش کا پانی نالوں میں جاتا ہے، تاہم عدم توجّہ اور دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ان علاقوں میں بھی سیوریج کا نظام تباہ ہو چکا ہے اور اب ان کا رخ بھی فطری نالوں کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ ان علاقوں میں نظام کی تباہی کی اہم وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر علاقوں میں گہرے نالوں(Deep Sewers) پر مشتمل نظام قائم کیا گیا تھا، جسے احسن طریقے سے چلانا اور اس کی دیکھ بھال کرنا مشکل امر تھا۔
ایک جانب شہر کے نکاسیِ آب کے نظام کو ٹھوس منصوبہ بندی کے تحت اور زمینی حقائق کو مدِّنظر رکھے بغیر تعمیر کیا گیا اور دوسری جانب یہ ستم ہُوا کہ شہر میں موجود فطری اور مصنوعی طور پر تعمیر کیے گئے نالوں کی دیکھ بھال اور صفائی کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے ان پر جگہ جگہ تجاوزات قائم ہوگئیں اور لوگوں نے انہیں کچرا کُنڈی کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔
پھر یہ کہ ان میں وقت کے تقاضوں کے مطابق مناسب حد تک توسیع نہیں کی گئی۔ چناں چہ شہر کے بہت سے مقامات پر ان کی سطح سیوریج اور ڈرینج کے نظام سے بلند ہوگئی۔ اس غفلت اور لاپروائی کے نتیجے میں آج شہر میں تھوڑی سی بارش ہونے پر جگہ جگہ سیلاب کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اخبارات میں شائع ہونے والی تصاویر اور خبریں اس غفلت اور لاپروائی کا منہ بولتا ثبوت ہیں، تاہم اس صورتِ حال کی ذمّے دار صرف حکومت نہیں ہے، بلکہ اس میں عوام اور خواص کا بھی اہم کردار ہے۔
زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے بنائے گئے منصوبے
شہر کے سیوریج اور ڈرینج کے مسائل پر قابو پانے کے لیے سرکاری اداروں نے وقتاً فوقتاً کئی منصوبے مکمل کیے، جن کے لیے عالمی اداروں سے بھاری قرضے لیے گئے اور مہنگے کنسلٹنٹس کی خدمات حاصل کی گئیں، تاہم یہ مسائل پائے دار بنیادوں پر حل نہیں ہو سکے۔ شہری منصوبہ بندی کے ماہرین کے مطابق ان منصوبوں کی ناکامی کی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ انہیں بناتے اور ان پر عمل درآمد کرتے وقت زمینی حقائق کو نظر انداز کیا گیا اور مختلف علاقوں کے عوام اور ان کے بلدیاتی نمائندوں نے غیر رسمی سیوریج اور ڈرینج کا نظام بنانے کے لیے جو اربوں روپے خرچ کیے تھے، انہیں مدِّنظر نہیں رکھا گیا۔
حالاں کہ یہ غیر رسمی نظام شہر کے فطری نالوں یا آبی گزرگاہوں(Drains) سے جا کر ملتا تھا۔ دوسری طرف ادارۂ فراہمی و نکاسیِ آب، کراچی کا عظیم تر منصوبہ نکاسیِ آب(گریٹر کراچی سیوریج پلان) اس نکتے کے گرد گھومتا رہا کہ شہر کے تمام تر فضلے اور گند آب کو ٹریٹمینٹ پلانٹس تک لے جایا جائے اور بارش کے پانی کو گند آب(سیوریج) سے علیحدہ کیا جائے۔
ماہرین کے مطابق اگرچہ یہ دونوں نکات صحیح تھے، لیکن کراچی کے معروضی حقائق کے تناظر میں ان نکات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا بلکہ یہ منصوبے بنانے اور ان پر عمل درآمد کرتے وقت شہر کے برسرِ زمین موجود حقائق سے صرفِ نظر کیا گیا اور یہاں عوام اور پچھلی حکومتوں نے جو کام کیے تھے اور جن پر تاحال کراچی کے ڈرینج اور سیوریج کے نظام کا انحصار ہے، انہیں نئے منصوبوں میں شامل کرنے میں مکمل ناکامی ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ادارے نے شہر میں جو سیوریج ٹرنکس تعمیر کیے، وہ خشک رہے اور ٹریٹمینٹ پلانٹس کومطلوبہ مقدار میں فضلہ(سیوریج) نہیں ملتا۔
حکّام کی غلطی پہ غلطی
ماہرین کے مطابق دوسری غلطی یہ کی گئی کہ ٹریٹمینٹ پلانٹس تک فضلہ لانے کے لیے ڈرینج چینلز یا نالوں کو ذریعہ بنایا گیا۔ اس طرح ادارے نے سیوریج اور بارش کے پانی کو علیحدہ رکھنے کے لیے جو نظام بنایا تھا، اُس کی خود ہی نفی کر دی۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں روزانہ تقریباً چار سوملین گیلن سیوریج پیدا ہوتا ہے، جس میں سے روزانہ صرف70ملین گیلن ٹریٹمینٹ پلانٹس تک پہنچ پاتا ہے اور وہ بھی وسیع پیمانے پر بنائے گئے منصوبوں اور بھاری خرچ کے بعد۔
کراچی میں اس وقت کُل تین ٹریٹمینٹ پلانٹس ہیں، جن کی کُل استعدادِ کار 151 ایم جی ڈی ہے۔ ماہرین کے مطابق عظیم تر منصوبۂ نکاسیِِ آب کے لیے ادارۂ فراہمی و نکاسیِِ آب کو عالمی اداروں سے بھاری قرضے لینا پڑے، جن کا بوجھ بالآخر کراچی کے غریب عوام ہی پر پڑا، لیکن مسئلہ پھر بھی حل نہیں ہُوا۔
ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، اورنگی پائلٹ پروجیکٹ 1980ء سے کراچی کی کچّی آبادیوں میں رہنے والوں کے ساتھ مل کر شہر کے سیوریج سے متعلق مسائل پر تحقیق، منصوبہ بندی اور منصوبوں پر عمل درآمد کا کام کر رہا ہے۔ چناں چہ یہ ادارہ اس حوالے سے زمینی حقائق کو سمجھنے اور انہیں دستاویزی شکل دینے، اس سرگرمی میں شامل رسمی اور غیر رسمی کرداروں کی مدد کرکے انہیں اپنے کام کا معیار بہتر بنانے اور اسے توسیع دینے کے قابل ہوگیا ہے۔
یہ ادارہ اورنگی ٹائون سمیت کراچی کی مختلف کچّی بستیوں اور ملک کے مختلف علاقوں میں منصوبہ بندی کے تحت بسائی گئی بستیوں میں اپنے تیارکردہ منصوبوں پر کام یابی سے عمل درآمد کرچکا ہے۔ اس ضمن میں اس ادارے نے کالعدم بلدیہ عظمیٰ کراچی اور سندھ کچّی آبادی اتھارٹی سے بھی تعاون کیا۔ اس کے ڈیزائن کیے ہوئے منصوبے کم قیمت اور قابلِ عمل ہیں اور ان پر عمل درآمد کے لیے بھاری بیرونی قرضوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔
برس ہا برس تک یہ ادارہ اپنے طور پر کراچی کے نالوں کے تفصیلی نقشے بناتا رہاہے اور اگر یہ کہا جائے کہ شہری خدمات فراہم کرنے والے کراچی یا صوبے کے کسی ادارے کے پاس ایسے تفصیلی نقشے نہیں ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ اس انسٹی ٹیوٹ کے ذمے داران کے مطابق کراچی کے سیوریج اور ڈرینج کے مسائل حل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ حکومت بھاری بیرونی قرضےلے کر منصوبے تعمیر کرنے کے بجائے ان میں عوام کو شریک کرے اور صرف بڑے بڑے منصوبے تعمیر کرنے کا کام حکومت کرے۔
دوم یہ کہ متعلقہ سرکاری ادارے فطری نالوں کو واضح حقیقت سمجھ کر قبول کریں، انہیں مکمل تحفظ دیں، ان پر تجاوزات قائم نہ ہونے دیں اور ان کی مستقل بنیادوں پر صفائی کا اہتمام کریں۔ لیاری ندی، گجر نالا، ملیر ندی اور اورنگی نالا شہر کے فطری مرکزی نالے یا ڈرین ہیں۔ ان کی ہر صورت میں حفاظت کی جانی چاہیے۔ اگر حکومت چاہے تو ان کے دونوں طرف باکس ڈرین(پختہ اور ڈھکے ہوئے گند آب کے نالے) تعمیر کردے تاکہ گند آب ان میں جائے اور فطری نالے یا ڈرین صرف بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے مخصوص رہیں۔
اس کے علاوہ نالے یا ڈرین فطری ہوں یا مصنوعی طور پر تعمیر کردہ ہوں، انہیں پختہ کیا جائے، ڈھانپا جائے اورکہیں بھی ان کی چوڑائی اور گہرائی کو کم نہ کیا جائے۔ ان باکس ڈرین کے آخری سِرے پر (سمندر کے کنارے) ٹریٹمینٹ پلانٹس لگا دِیے جائیں۔ یاد رہے کہ او پی پی کے ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ نے پورے کراچی کے ایک ایک نالے کو ڈیجیٹائز کیا ہے اور یہ نقشے ادارۂ فراہمی و نکاسیِ آب کو بھی فراہم کیے ہیں۔
اب کیا کریں؟
شہری منصوبہ بندی کے ماہرین کے مطابق شہر میں نکاسی آب کے مسائل حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پائپ ڈرین اور پائپ کل ورٹس کے بجائے باکس ڈرین اور باکس کل ورٹس بنائے جائیں۔ اس کے علاوہ پینے کے پانی کی لائنیں جہاں نالوں کے اندر سے گزر رہی ہیں انہیں باہر نکالا جائے یا صورت حال دیکھ کر ہر علاقے میں الگ الگ نوعیت کے فیصلے کیے جائیں۔
ان پائپس پر پرجیکٹ (حفاظتی تہہ) چڑھانا مسئلے کا مستقل اور خطرات سے مُبرّا حل نہیں ہے۔ ان کے مطابق فطری آبی گزرگاہوں کو جب اور جہاں بند کیا جاتا ہے۔ وہاں شدید نقصانات سامنے آتے ہیں۔ غریبوں پر تجاوزات قائم کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں، لیکن او پی پی کے تجربات بتاتے ہیں کہ امیروں کے علاقوں میں زیادہ تجاوزات ہوتی ہیں۔ غریب اگر تین فیٹ کی تجاوزات قائم کرتا ہے تو امیر تیس فیٹ کی قائم کرتا ہے۔ کلفٹن میں نالوں پر جگہ جگہ امیروں نے تیس تیس فیٹ لمبے چوڑے لان بنا رکھے ہیں۔
تیسری دنیا کے مختلف ممالک میں گہرے سیور بنانے اور ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے کے بجائے باکس کل ورٹس، کم گہرے سیور اور میرین آؤٹ فالز کو اپنایا گیا ہے۔ اس کے لیے ان ممالک نے انجینیرنگ کے معیارات اور طریقے اپنائے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں جاپان اور سوئٹزرلینڈ نے فطری نالوں، ٹرنک مین اور رین واٹرڈ رینج چینلز کوترقی دینے کی قابل عمل مثالیں پیش کی ہیں۔ بھارت میں اندور شہر میں بھی یہ طریقہ اپنایا گیا جس پر اسے آغا خاں ایوارڈ برائے آرکی ٹیکچر دیا گیا، لیکن ہمارے ہاں اب تک اس حوالے سے عجیب و غریب منصوبے بنائے گئے۔
یہاں125فیٹ چوڑی نہر (کلفٹن) کو خیام کو کہیں ایک فیٹ قطر کے دو پائپس اور کہیں48انچ قطر کے پائپ میں سمونے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح خِیابانِ اقبال روڈ کے دونوں طرف جو چوڑا نالا تھا اسے 12تا18انچ قطر کے پائپ میں سمونے کی کوشش کی گئی۔ شہری منصوبہ بندی کے ماہرین کے مطابق کراچی میں بارشوں میں اس لیے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں کہ لوگ بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے گٹر کے ڈھکن کھول دیتے ہیں۔ اس طرح گٹر میں ریت اور کچرا بھی چلا جاتا ہے، جسے صاف کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
فطری نالے قیمتی اثاثہ
ماہرین کے مطابق ہمیں شہر کے سیوریج اور ڈرینج کے مسائل حل کرنے کے لیے فطری نالوں یا ڈرین کو اپنا بہت قیمتی اثاثہ تسلیم کرنا ہوگا، کیوں کہ وہ پورے شہر کو برسات میں بالخصوص پانی سے بچاتے ہیں اور عام دنوں میں شہر کا اسّی فی صد گند آب اور فضلہ ان ہی کے ذریعے سمندر میں جاتا ہے۔
کراچی کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن یہ کہہ کر جان چھڑا لیتی ہے کہ تمام نالے دراصل برساتی پانی کے نالے ہیں اور اس محکمے کا تعلق گند آب لے جانے والے نالوں سے ہے، حالاں کہ شہر کے تمام برساتی نالوں میں سارا سال سیوریج کا پانی بہتا ہے۔
ایسی صورت حال میں کے ایم سی پر تمام ذمے داری آجاتی ہے۔ حکّام کے بہ قول کراچی کے تمام نالے بنیادی طور پر برساتی پانی لے جانے کے لیے بنائے گئے تھے، لیکن ان میں سارا سال گندا پانی بہتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے ان نالوں میں سلج اور سلٹ جمع ہوتی رہتی ہے۔ پھر یہ کہ لوگ ان میں کچرا پھینکتے ہیں۔ علاوہ ازیں شہر کے زیادہ تر نالوں پر تجاوزات قائم ہو چکی ہیں۔
بعض مقامات پر 40فیٹ چوڑا نالہ محض2فیٹ کا رہ گیا ہے۔ نالوں پر تجاوزات بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ان لوگوں کو ہٹانا بہت مشکل کام ہے۔ بعض مقامات پر لیز تک حاصل کرلی گئی ہیں۔ مثلاً حبیب بینک پلازہ کے پاس نالے کی زمین کی لیز حاصل کرکے اس پر کارپارکنگ بنا دی گئی ہے۔ عوام کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور کیا انہیں ہر سال مون سون کے موسم میں اسی طرح عذاب سے گزرنا اچھا لگتا ہے۔
سب کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا
اس مسئلے کے حل کے لیے عوامی نمائندوں اور تمام متعلقہ فریقین کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ ماہرین کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ شہر کے تمام بڑے نالوں کے لیے ماسٹر پلان بنایا جائے اور پھر عوامی نمائندوں اور متعلقہ فریقین سے رابطہ کر کے مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔ نالوں کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے ٹائونز کی سطح پر بھی بعض مسائل ہیں، انہیں بھی حل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
شہر کے پرانے علاقوں مثلاً لائٹ ہاؤس، جوڑیا بازار اور آئی آئی چند ریگر روڈ پر صورت حال بہت خراب نظر آتی ہےاور آئندہ بھی ایسا ہی ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان علاقوں سے گزرنے والے دو بڑے نالوں، یعنی سولجر بازار نالے اور سٹی ریلوے اسٹیشن نالے کی کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔
پھر یہ کہ مائی کلاچی بائی پاس کی تعمیر اور پھر وہاں قریب میں واقع اراضی پر پلاٹس بنا کر فروخت کرنے سے مسئلہ بہت گمبھیر ہو گیا ہے، کیوں کہ مذکورہ دونوں نالے اس مقام پرجا کر سمندر میں گرتے ہیں۔ سولجر بازار نالے کا دہانہ پہلے 65 فیٹ چوڑا تھا، لیکن اب تقریباً 35فیٹ رہ گیا ہے۔ اسی طرح سٹی ریلوے اسٹیشن نالے کا دہانہ پہلے تقریباً 45 فیٹ چوڑا تھا، جو اب کم ہوکر 30 فیٹ رہ گیا ہے۔
ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی کے بعض حصوں میں اس سال بھی مسائل پیدا ہوئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں سمندر سے زمین حاصل کرکے پلاٹ کاٹے گئے ہیں۔ قیوم آباد کی طرف ڈیفنس اتھارٹی کا نالہ آتا ہے، وہاں بھی سمندر سے زمین حاصل کرنے کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ لیاری ندی اور اردگرد کے علاقوں میں بھی برسات کے پانی نے مسائل پیدا کیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں بائی پاس کے ساتھ سو دو سو فیٹ کے فاصلوں پر ان لیٹ بنائے گئے ہیں۔
یہ فاصلہ کم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ پانی کم فاصلہ طے کرکے جلد لیاری ندی میں چلا جائے۔ شارع فیصل پر بہت برا حال تھا، وہاں پی ای ایس ایچ کے بلاک نمبر 6میں نالے کو بہت گھما دیا گیا ہے، جس سے پانی کی روانی متاثر ہوئی ہے۔ پھر یہ کہ وہاں کا نالہ منظور کالونی نالے میں گرتا ہے اور منظور کالونی کے نالے کا دہانہ قیوم آباد کے قریب سمندر میں گرتا ہے، وہاں سمندر سے زمین حاصل کرنے کی وجہ سے دہانہ اب محض 32 فیٹ چوڑا رہ گیا ہے۔
آئی آئی چند ریگر روڈ پر ڈرین تو مناسب ہیں، لیکن وہ سٹی ریلوے اسٹیشن نالے اور سولجر بازار نالے سے منسلک ہے، لہٰذا وہاں بنیادی مسائل حل ہونے تک صورت حال یوں ہی رہے گی۔ منظور کالونی نالہ اور گجر نالہ پختہ کرنے سے کچھ بہتری آئی ہے۔ اسی طرح کلری نالے کو بہتر بنانے اور مچھر کالونی کے پاس سیوریج لائن کو بائی پاس کرکے سیور ٹرنک میں ڈالنے سے مچھر کالونی کے آس پاس کے علاقوں میں صورت حال کچھ بہتر ہوئی ہے۔
اورنگی اور بلدیہ ٹائونز میں کورڈ ڈرینز بنانے سے بھی بہتری آئی ہے۔اس کے باوجود نالوں کے ضمن میں اب بھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض نالوں کے آرپار یوٹیلٹی سروسز کی لائنز گزر رہی ہیں، خصوصاً پانی کی لائنز، وہ نالوں میں پانی کی روانی کو متاثر کرتی ہیں، انہیں ہٹانا ضروری ہے۔
کراچی کے نالے اور ان کی مجموعی طوالت
(1) سولجر بازار نالا بہ شمول اس کی چار شاخیں (4000 فیٹ) 2)سٹی ریلوے اسٹیشن نالا (10825فیٹ)(3) اعظم بستی نالا(866فیٹ) (4)محمود آباد نالا بہ شمول اس کی شاخیں (2700 فیٹ)(5) نیول کالونی نالا(11258فیٹ) (6) اورنگی کا مرکزی نالا۔ بنارس چوک تالیاری ندی(19918فیٹ)(7) اورنگی ٹائون نالا (94234فیٹ)(8) کلری نالا(9526 فیٹ) (9)پچر نالا(14700فیٹ)(10) عیسیٰ نگری نالا اور ویلفیئر کالونی نالا(7794فیٹ)(11) خواجہ اجمیر نگری نالا اور شمالی کراچی سیکٹر11۔ اے کا نالا (14000) (12) بلدیہ نالا نمبر ایک (15715فیٹ) (13) بلدیہ نالا نمبر 2( 7000 فیٹ) (14) بلدیہ نالا نمبر تین (7784فیٹ)(15)شیر شاہ نالا (6603فیٹ) (16)کالابورڈ نالا (9310فیٹ)(17)ملیر سٹی نالا (9959 فیٹ)(18)عزیز بھٹی نالا (13856 فیٹ)(19)پیر پگارا روڈ نالا (8877فیٹ) (20) کورنگی نالا نمبر ایک اور دو (48496 فیٹ) (21) ہارون آباد نالا(17753فیٹ)(22 )حب نالا (23815فیٹ)(23) شارعِ فیصل نالا (6000فیٹ) (24) مجاہد کالونی نالا(12500فیٹ) (25) نہرِ خیام نالا (5629 فیٹ) (26)چوکور نالا (23080فیٹ)(27) حیدری نالا نمبر ایک اور دو (15600 فیٹ)(28)شپ اونر کالج نالا (6575 فیٹ)(29)منظور پیٹرول پمپ تا اسلامیہ کانٹا، ملیر (نزد قائدآباد) نالہ (900فیٹ)(30)مسلم راجپوت کالونی نالا (2552فیٹ)(31) پیٹرول پمپ نالا (3350فیٹ)(32) قلندریہ نالا(17200فیٹ) (33)مدینہ کالونی نالا (1299 فیٹ) (34) گلشن اقبال،سیکٹر 13 ڈی کا نالا( 9093 فیٹ) (35) پیر آباد نالا(2598فیٹ)(36) میانوالی کالونی نالا (11238فیٹ) (37)ضیاء الدین اسپتال نالا (16478 فیٹ) (38)کریم آباد نالا (7000 فیٹ) (39) واٹر پمپ نالا (5890فیٹ) (40)نیپا چورنگی نالا (15588فیٹ) (41) منظور کالونی نالا (11700فیٹ)(42)سونگل نالا (8660 فیٹ) ۔