لاہور(خالدمحمودخالد) گزشتہ روز چین کے شہر تیانجن میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ہونے والے مصافحے اور سائیڈ لائین ملاقات کے حوالے سے بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس نے مودی پر شدید تنقید کی اور ان پر طنز کرتے ہوئے اسے صرف مسکراہٹوں والی ملاقات قرار دیا اور کہا کہ یہ ملاقات بھارتی مفادات کی بجائے مودی کی ذاتی سفارت کاری زیادہ تھی۔ کانگریس نے مودی پر الزام لگایا کہ وہ چین کے بھارت مخالف اقدامات کے باوجود اپنے لہجے میں سختی نہیں دکھا سکے۔ سوشل میڈیا پر اپنے بیانات میں کانگریس نے مودی کو یاد دلایا کہ 2020 میں گلوان وادی میں چینی فوج نے بھارت کے بیس فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا جن کا چینی صدر کے ساتھ ذکر کرنے سے مودی گھبرا رہے تھے۔ اس کے علاوہ حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران چین نے پاکستان کی کھل کر مدد کی، اسے براہ راست اپ ڈیٹس فراہم کیے اور پاکستان کے ساتھ مل کر بھارت کے خلاف کام کیا۔ چین کے ان اقدامات پر نریندر مودی نے مسکراتے ہوئے شی جن پنگ سے ہاتھ ملایا۔ کانگریس نے اس ملاقات کو 1962 کی بھارت چین جنگ کے بعد کا سب سے بڑا جھٹکا قرار دیا اور کہا کہ مودی حکومت امریکہ سے ڈر رہی ہے اور اسی "ڈرپوک پن" اور غلط معاشی پالیسیوں کی وجہ سے چین جیسے مخالف ملک کے ساتھ بھی تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مودی کو چین میں"سخت قدم" اٹھانا چاہئے نہ کہ مسکراہٹوں سے کام چلانا چاہیے۔ کانگریس کے جنرل سیکرٹری جے رام رمیش نے ایک بیان میں کہا کہ یہ ملاقات بھارتی مفادات کی بجائے ذاتی سفارت کاری کی علامت ہے اور اس سے چین کو فائدہ ہوگا۔