ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آج کی مبارک ساعت میں اپنے بڑھاپے کا اعلان کر دیں کہ ہمارا حافظہ بھی کمزور ہو گیا ہے۔ یہ حافظہ کمزور ہونے والا لطیفہ قدرے طویل ہے، تاہم اُکتا دینے والا نہیں ہے۔ ایک محفل میں اسّی اسّی نوے نوے سال کے تین بوڑھے بیٹھے بڑبڑا رہے تھے کہ وہ بوڑھے ہو گئے ہیں۔ ایک نے کہا ’’میں روزانہ پندرہ میل، واک کرتا ہوں۔ آج صرف چودہ میل کی واک کے بعد مجھے قدرے تھکاوٹ کا احساس ہوا۔ بس یار بوڑھا ہو گیا ہوں‘‘دوسرے نے کہا ’’میرا دفتر بارہویں منزل پر ہے، میں لفٹ استعمال کرنے کے بجائے ہمیشہ سیڑھیوں کے ذریعے اپنے دفتر تک پہنچتا ہوں، لیکن آج میں نے سیڑھیوں کے ذریعے صرف گیارہ منزلیں ہی طے کی تھیں کہ سانس پھول گیا۔ بس یار بوڑھا ہو گیا ہوں۔‘‘ تیسرے نے سرد آہ بھری اور کہا ’’یارہ! میں روزانہ سو ڈنڈ نکالتا ہوں۔ آج ناشتے سے پہلے اس کام کیلئے تیار ہونے لگا تو میری بیوی نے کہا کہ تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا۔ ابھی ابھی تم نے سو ڈنڈ نکالے ہیں اور اب پھر شروع ہونے لگے ہو، بس یار حافظہ کمزور ہو گیا ہے، بوڑھا ہو گیا ہوں ‘‘اور یوں ظاہر ہے ہم بھی بوڑھے ہو گئے ہیں۔ہم اپنے بڑھاپے کا قدرے تفصیلی ذکر تو بعد میں کریں گے، پہلے ایک سابق نواب اور حال مفلس ’’نواب‘‘ کی حکایت بیان کر لیں ۔ ان نواب صاحب نے اخبار میں نوکر کیلئے اشتہار دیا۔ تو ایک مفلوک الحال شخص پیش ہوا اور پوچھا کہ آپ تنخواہ کیا دیں گے؟ نواب صاحب نے کہا تنخواہ و نخواہ کچھ نہیں۔ بس دو وقت کا کھانا ملے گا۔ ملازمت کا متلاشی یہ شخص خاصی بدحالی کا شکار تھا۔ چنانچہ اس نے دو وقت کی روٹی ہی کو غنیمت جانا اور کہا ٹھیک ہے مگر کام کیا ہوگا۔ نواب صاحب نے جواب دیا کام کچھ زیادہ نہیں بس تمہیں دن میں دو وقت داتا دربار جا کر لنگر سے اپنے اور میرے لیے کھانا لانا ہوگا۔ ظاہر ہے ان نواب صاحب کا حافظہ بھی خاصا کمزور تھا۔ ورنہ نوکر کیلئے اشتہارات دیتے وقت انہیں اپنی موجودہ حیثیت ضرور یاد رہتی۔کچھ یہی کیفیت ان دنوں ہماری بھی ہے۔ یعنی حافظہ کمزور ہو گیا ہے ہمیں کبھی لوگوں کی شکلیں یاد رہ جاتی ہیں اور نام بھول جاتے ہیں اور کبھی نام یاد رہ جاتے ہیں اور شکلیں بھول جاتی ہیں۔ ان ہر دو صورتوں میں ہمیں خاصی ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طویل مدت کے بعد ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔ ہمیں انکی شکل یاد رہ گئی تھی، نام بھول چکا تھا، لیکن جب انہوں نے نام بتایا تو ہمیں انکی شکل بھول گئی۔ اسی طرح ایک دوست کا صرف نام یاد رہ گیا تھا شکل بھول گئی تھی۔ ہم نے پشیمان ہو کر اپنی شکل یاد دلانے کیلئے کہا تو انہوں نے ازراہِ کرم اپنی شکل یاد کرائی اور پھر ظاہر ہے ہمیں ان کا نام بھول گیا۔ بس ان دنوںہم ایسے مسئلے سے دوچار ہیں نام اورشکل میں سے صرف ایک چیز یاد رہتی ہے۔ کیونکہ ناموں جیسی شکلیں نظر نہیں آتیں اور شکلوں جیسے نام نہیں ملتے۔ بس حافظہ کمزور ہو گیا ہے بوڑھے ہو گئے ہیں۔ویسے یہ حافظے کی کمزوری کا ایک ہم ہی شکار نہیں ان دنوں بھی کچھ لوگ اس کمزوری میں مبتلا ہیں۔ ایک دوست نے کہا یار! یہ کون سا مہینہ ہے۔ ہم نے کہا ’’اگست کا‘‘ بولے ’’سال کون سا ہے؟‘‘ ہم نے کہا 1925۔ انہوں نے کچھ دیر کیلئے ذہن پر بوجھ ڈالا اور کہا ’’ہاں مجھے یاد آ گیا لیکن ایک بات بتائو یہ جو ان دنوں اتنا شاید حبس ہے اور دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے تو کیا گزشتہ برسوں میں بھی موسم ایسا ہی تھا؟‘‘ ہم نے کہا ’’ہاں گزشتہ برسوں میں بھی یہی موسم تھا بلکہ ان دنوں میں تو لوگ سڑکوں پر مرتے رہے ہیں۔ کیا تمہیں وہ سب کچھ یاد نہیں؟‘‘ کہنے لگے ’’مجھے کچھ یاد نہیں۔‘‘ حافظہ کمزور ہو گیا ہے، بس بوڑھا ہو گیا ہوں۔سر معاملہ کچھ یوں ہے کہ حافظے کی کمزوری نے اپنے پائوں بہت پھیلا لیے ہیں۔ کچھ ’’نواب صاحب‘‘ ایسے ہیں جو سب کچھ لٹا کے بھی ہوش میں نہیں آئے اور اپنے کمزور حافظے کی وجہ سے ابھی تک خود کو نواب ہی تصور کرتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگوں کو صرف آج کے موسم کی سختیاں یاد ہیں اور کچھ کو صرف گزشتہ موسموں کا بھی حبس کچھ کچوکے دیتا ہے۔ دراصل ہم سب لوگ سو سو ڈنڈ نکال چکے ہیں اور اپنے کمزور حافظے کی وجہ سے مزید سو ڈنڈ نکالنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ہم سب کا حافظہ کمزور ہو گیا ہے۔ ہم سب بوڑھے ہو گئے ہیں۔