اردو کے مایہ ناز شاعر جناب الطاف حسین حالیؔ نے ایک انتہائی سادہ شعر میں زندگی کی بہت بڑی حقیقت بیان کی تھی ؎
مصیبت کا اِک اِک سے احوال کہنا
مصیبت سے ہے یہ مصیبت زیادہ
مَیں نے عمر بھر اِسی نصیحت پر عمل کیا، مگر اِس بار معاملہ کچھ مختلف رہا۔ مَیں ایک صبح گہری نیند میں بستر سے گر پڑا اَور گردن پر چوٹ آئی۔ مَیں نے سوچا اِس کا ذکر کالم میں کر دیا جائے تاکہ میری عمر کے قارئین احتیاط سے کام لیں، چنانچہ ہلکا سا ذکر کر دیا۔ چوتھا فون جناب محمد حنیف کا تھا جو کراچی میں رہتے اور وَکالت کرتے ہیں۔ اُن سے میری ملاقات غریب خانے پر جناب عبدالستار عاصم کے ہمراہ چند ماہ پہلے ہوئی تھی۔ اُنہوں نے بتایا کہ مَیں آپ کو بچپن سے پڑھتا آیا ہوں اور آپ کی تحریروں کا بڑا گرویدہ ہوں کہ آپ مشکل حالات میں بھی حق کی بات لکھتے اور اِستقامت سے اُس پر قائم رہتے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ آپ کی تحریروں میں میرے مرشد سیّد ابوالاعلیٰ مودودی سے گہری عقیدت کی مہک آتی ہے۔ مَیں آپ کو اِس عہد کا ولی سمجھتا ہوں۔ مَیں نے کہا کہ آپ نے جو الفاظ ادا کیے ہیں، وہ نفس پھلا دیتے اور اِنسان کو غلط راستے پر ڈال دیتے ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ مَیں نے لکھنا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریروں سے سیکھا، لیکن مجھ سے ایک عام آدمی کی طرح اچھے کام ہوئے ہوں گے اور بہت ساری خطائیں بھی، اِس لیے آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کرتے رہا کیجیے۔ وہ مجھے ہر روز ایک دو بار ضرور فون کرتے اور علامہ عاصم کے ذریعے پھلوں کا تحفہ بھی بھیجتے رہتے ہیں اور میرے آرام کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں مَیں مغرب کی نماز میں آپ اور آپ کے خاندان کے لیے خصوصی دعائیں کرتا ہوں۔
اِس کے بعد اِسی شہر سے میرے عظیم دوست نصیر سلیمی کا فون آیا۔ اُن سے گہرے تعلقات تقریباً نصف صدی پر محیط ہیں۔ وہ اَعلیٰ پائے کے صحافی تھے اور صوبہ سندھ کے چلتے پھرتے انسائیکلوپیڈیا۔ مجھے جب صحافتی ذمےداریاں ادا کرنےکیلئے سندھ جانا ہوتا، تو مَیں اُنہیں پروگرام ترتیب دینے کیلئے کہہ دیتا۔ وہ اِنتظامات بھی کرتے اور میرے ہم سفر بھی رہتے۔ ایک بار اُردو زبان کے مسئلے پر سندھ میں فسادات پھوٹ پڑے۔ ہم دونوں حالات کے قریبی مشاہدےکیلئے سندھ کے اندرونی علاقوں میں پہنچ گئے۔ دوستوں نے منع بھی کیا، مگر ہم نے خطرات مول لیے اور بھڑکتی ہوئی آگ پر پانی ڈالنے کی کوشش بھی کی، مگر فرق اُس وقت پڑا جب پنجاب میں پیپلزپارٹی کی قیادت نے سندھ کی قیادت کو سمجھایا کہ اِن فسادات سے پارٹی کو پاکستان میں بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔ اُنہیں بات سمجھ میں آ گئی اور طوفان رکتا چلا گیا۔ ایک زمانے میں سیاسی جماعتیں حالات سدھارنے پر خاص توجہ دیتی تھیں۔ جناب نصیر سلیمی آج کل بینائی سے محروم ہیں، اِس لیے لکھ پڑھ سکتے ہیں نہ فون ملا سکتے ہیں، مگر اُن کے اندر دوستی کا شعلہ اُسی طرح لپک رہا ہے جو اُنہیں چَین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ وہ بےغرضی، اِیثارکیشی اور خودداری کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔
گردن پر چوٹ کے ساتھ ساتھ میری بینائی بھی دھندلا گئی تھی، لیکن گردن کا درد حاوی رہا۔ اِس کا اندازہ مجھے اُس وقت ہوا جب دوسرے ہی دن عزیز دوست سلمان غنی ایک صاحب کے ہمراہ مزاج پرسی کیلئے آئے۔ ابتدائی بات چیت کے بعد مَیں نے پوچھا ہمارے دوست جناب سجاد میر آج کل کس حال میں ہیں۔ اُنہوں نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا وہ تو آپ کے سامنے بیٹھے ہیں۔ اپنی بےچارگی پر میرا دِل بار بار بھر آیا کہ وہ دوست جو میرے دل میں بستے ہیں، میری نظر اُنہیں پہچان نہیں پائی۔ اب اللّٰہ تعالیٰ کے فضل سے بینائی بہتر ہو گئی ہے۔
کوئی پانچ چھ برس بعد اپنے ہم دم دیرینہ کی آواز سنی۔ میرا کالم پڑھنے کے بعد جناب جسٹس زاہد حسین کا میرے بیٹے کو فون آیا کہ تم نے سب سے پہلے اِس واقعے کی مجھے اطلاع کیوں نہیں دی۔ کامران نے اپنی کوتاہی پر معذرت کی۔ جسٹس صاحب ایک زمانے میں جوہر ٹاؤن میں ہمارے محلےدار تھے۔ اُن سے قومی معاملات پر تبادلۂ خیال ہوتا رہتا۔ اُن کی اہلیہ ہمیں اکثر کھانے پر دعوت دیتیں اور ہماری گفتگو میں بھی پوری طرح شریک رہتیں۔ دراصل ایڈووکیٹ زاہد حسین میرے بہت بڑے محسن ہیں۔ اُنہوں نے انتہائی سخت حالات میں ایک ایسا کارنامہ سرانجام دیا جو پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ ہوا یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو کے عہدِ حکومت میں تیل اور گیس تلاش کرنے والی کارپوریشن او جی ڈی سی نے یہ تاثر دینا شروع کیا کہ وہ تیل کے بڑے بڑے ذخائر دریافت کر رہی ہے۔ اِس کارپوریشن کے سربراہ جناب شہزاد صادق نے ایک روز باقاعدہ اِعلان کیا کہ ڈھوڈک میں تیل کا بہت بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے۔ حُسنِ اتفاق سے میرے ایک دوست ایک بڑی پٹرولیم کمپنی میں کام کر رہے تھے اور تمام رازہائےسربستہ سے واقف تھے۔ اُنہوں نے مجھے بتایا یہ دعویٰ ایک فراڈ کے سوا اَور کچھ نہیں۔ اِس کے برعکس وزیرِاعظم بھٹو قومی اسمبلی کے ایک سیشن میں ایک بوتل میں پٹرول بھر کے لے گئے اور اَپوزیشن لیڈر مولانا مفتی محمود کو بوتل سنگھائی اور پاکستان میں پٹرول نکل آنے پر مبارک باد پیش کی۔ مَیں نے اردو ڈائجسٹ میں حقائق کے ساتھ ایک مضمون شائع کیا جس میں حکومتی دعویٰ بےبنیاد قرار دِیا۔ پھر شہزاد صادق نے میرے اور محترمہ ملیحہ لودھی کے والد بزرگوار کے خلاف دس کروڑ روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا۔ ہم جناب ایس ایم ظفر کے پاس گئے اور اُنہیں سارا ماجرا سنایا۔ اُنہوں نے یہ کیس زاہد حسین ایڈووکیٹ کے حوالے کر دیا۔ اُنہوں نے کمال مہارت اور عرق ریزی سے یہ کیس لڑا کہ شہزاد صادق کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور اُنہیں آخرکار اَپنی سرکاری کذب بیانی پر پاکستان سے باہر جانا پڑا۔ جسٹس زاہد حسین پانچ چھ سال پہلے خاموشی سے سُکھ چَین ہاؤسنگ سوسائٹی منتقل ہو گئے اور آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کی ضرب المثل بن گئے۔ جب اُن کا فون آیا، تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے ہم دم دیرینہ سے ملاقات ہو گئی ہے جو ملاقاتِ مسیحا و خضر سے بہتر ہے۔