قطر کے دارالحکومت دوحہ میں عین اس مقام پر جہاں قطر کی میزبانی میں حماس کے اہم رہنما جنگ بندی کی امریکی تجاویز پر مشاورت کررہے تھے ، اسرائیل کاخطرناک میزائل حملہ بار بار سامنے آنے والی اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ صہیونی حکمراں امن چاہتے ہی نہیں ۔ وہ جنگ کے دائرے کو پھیلا کر’’ عظیم تر اسرائیل‘‘ کے اس منصوبے کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں جس کا اعلان انہوں نے اپنی ناجائز ریاست کے قیام کے پہلے دن سے ان الفاظ میں کر رکھا ہے کہ ’ ’ ائے اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں‘‘ ۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کی عمارت پر گریٹر اسرائیل کا یہ نقشہ ، آٹھ دہائیوں سے صہیونی حکمرانوں کے حقیقی عزائم کی بھرپور عکاسی کررہا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ایک ماہ پہلے اگست کی بارہ تاریخ کو ایک ٹی وی انٹرویو میں کسی لاگ لپیٹ کے بغیر کہہ چکے ہیں کہ ’’ میں گریٹر اسرائیل کے تاریخی اور روحانی مشن پر ہوں‘‘۔
گریٹر اسرائیل سے کیا مراد ہے؟ اسرائیل کے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر چھ جنوری کو گریٹر اسرائیل کا جو نقشہ شائع کیا گیا اس میں فلسطین ، شام اور لبنان کے اس میں مکمل طور پر شامل ہونے کے علاوہ اردن کے بعض حصوں کو بھی اسرائیل کا حصہ دکھایا گیا ہے۔یہ ہے وہ منصوبہ جس کا خواب یہودی آج سے نہیں ہزاروں سال سے دیکھ رہے ہیں۔تاہم اس حوالے سے تاریخی حقائق اور خود بائبل کے مطابق یہودی تیرہ سو برس قبل مسیح میں فلسطین کے اصل باشندوں کی نسل کشی کرکے ان کی سرزمین پر جبراً قابض ہوئے تھے لیکن آٹھویں صدی قبل مسیح میں اسیریا کے حکمراں نے شمالی فلسطین سے جبکہ چھٹی صدی قبل مسیح میںبابل کے بادشاہ نے جنوبی فلسطین پر قبضہ کرکے یہودیوں سے پورے علاقے کو خالی کرالیا۔ایرانی دور حکومت میں اسرائیلیوں کو ایک بارپھر فلسطین میں آباد ہونے کا موقع ملا لیکن 135 عیسوی میں رومی سلطنت کے خلاف دوسری بغاوت کے بعدرومیوں نے پورے فلسطین سے یہودیوں کو نکال باہر کیا جبکہ عرب شمالی فلسطین میں تقریباً ڈھائی ہزار اور جنوبی فلسطین میں دو ہزار سال سے آباد چلے آ رہے ہیں۔ اس لیے یہودیوںکے پاس فلسطین کو اپنا وراثتی علاقہ قرار دے کر اس پر قابض ہونے کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہیں۔ یہ ایسی واضح حقیقت ہے جسے خود صہیونی رہنما اور اسرائیل کے بانی بھی تسلیم کرچکے ہیں۔ اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان، عالمی یہودی کانگریس کے صدر ناہم گولڈ مین کولکھے گئے اپنے تاریخی اہمیت کے حامل ایک خط میں اس سچائی کا برملا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں :
"If I were an Arab leader I would never make terms with Israel.That is natural: we have taken their country...We come from Israel, but two thousand years ago, and what is that to them? There has been anti-semetism, the Nazis, Hitler, Auschwitz, but was that their fault? They only see one thing: we have come here and stolen their country.Why should they accept that?"
یعنی : ’’اگر میں کوئی عرب لیڈر ہوتا تو اسرائیل سے کبھی سمجھوتہ نہ کرتا۔یہ ایک فطری بات ہے ۔ ہم نے اُن سے اُن کا ملک چھینا ہے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ ہمارا تعلق اسرائیل سے ہے لیکن یہ دوہزار سال پہلے کی بات ہے۔ فلسطینیوں کا بھلا اس سے کیا واسطہ۔ ہاں دنیا میں یہودی مخالف تحریک، نازی، ہٹلر ، آش وِٹز سب رہے ہیں، مگر کیا اس کے ذمہ دار فلسطینی ہیں؟وہ صرف ایک چیز دیکھتے ہیں: ہم یہاں آئے اور ہم نے ان کا ملک چرا لیا۔آخر وہ اس چیز کو کیوں قبول کریں؟‘۔امریکی محققین پروفیسر جان میئر شیمر (John Mearsheimer) اور پروفیسر اسٹیفن والٹ (Stephen Walt) نے اپنی کتاب ’’دی اسرائیل لابی اینڈ یوایس فارن پالیسی‘‘ میں ڈیوڈ بن گوریان کا یہ خط نقل کیا ہے۔
یہ حقائق فلسطین پر اسرائیلی قبضے اور اس کے بعد گریٹر اسرائیل کے منصوبوں کے سراسر ناجائز اور شرپسندانہ ہونے کا بیّن ثبوت ہیں لیکن صہیونی حکمرانوں کو اپنے مغربی سرپرستوںکی مکمل اشیرباد حاصل ہے جسکی وجہ سے یہ سمجھنا سادہ لوحی کی آخری انتہا ہوگی کہ دلیل و حجت اور مذمتی بیانات اور قراردادوں کے ذریعے سے انہیں اُن کے ناپاک منصوبوں کو آگے بڑھانے سے روکا جاسکتا ہے ۔ عرب ملکوں نے اگر معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے بے پناہ وسائل کو دنیا کی بڑی فوجی طاقتوں میں شامل ہونے کیلئے بھی استعمال کیا ہوتا تو گریٹر اسرائیل کے صہیونی عزائم سامنے ہی نہ آتے اور فلسطین بھی اسرائیلی قبضے سے آزاد ہوچکا ہوتا۔ دنیا میں وہی قومیں اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتی ہیں جو معیشت اور دفاع دونوں میدانوں میں خود کفیل ہوں۔یہ محض دنیاوی معاملہ نہیں بلکہ مسلمانوں کیلئے قرآنی حکم ہے۔ سورہ انفال کی 60 ویں آیت میں کہا گیا ہے ’’ اور تم لوگ ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ، ان کے مقابلے کیلئے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اپنے اور اللّٰہ کے دشمنوں کو اور اُن دوسرے اعداء کو خوف زدہ کردو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللّٰہ جانتا ہے۔‘‘ دفاع کو مضبوط بنانے سے غفلت اور محض معاشی خوشحالی کو مقصود بنانے کے جو ہولناک نتائج آج سے تقریباً پونے آٹھ سو سال پہلے بغداد کی عظیم الشان سلطنت کی چنگیز خان کے پوتے ہلاکو کے لشکروں کے ہاتھوں تباہی کی شکل میں سامنے آئے تھے، کوئی وجہ نہیں کہ اس رویہ کے وہی نتائج آج بھی رونما نہ ہوں۔ لہٰذا پوری عرب اور مسلم دنیا کو اب اپنے وسائل کو اونچی عمارتوں اور تعیش گاہوں کی تعمیر کے بجائے ہنگامی بنیادوں پر فوجی طاقت میں خاطر خواہ اضافے کیلئے استعمال کرنا چاہئے، اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات